تحریر:ہارون رشید شاہ
لو جی اپنے رام بن کے ڈی سی صاحب چاہتے ہیں کہ جعلی صحافیوں کیخلاف پولیس کارروائی کی جائے… اللہ میاں ڈی سی صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ‘انہیں کیا ہو گیا ہے… یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں… انہیں کوئی بتائے ‘ انہیں کوئی سمجھائے کہ یہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کریں کہ … کہ اگر پولیس’ جعلی‘ صحافیوں کیخلاف کارروائی کرے گی تو … تو پھر یہاں بچے گا کیا ؟ہمارا مطلب ہے کہ … کہ پھر تو یہاں صحافی اورصحافت کے نام پر کوئی نہیں بچے گا اور… اور اس لئے نہیں بچے گا کہ … کہ ملک جموںکشمیر میں یہ ’جعلی ‘صحافی ہی ہیں جو ساراشو چلا رہے ہیں… صحافت کا شو…اگران کی دکانیں بند ہو گئیں تو… تو ڈی سی صاحب یوں سمجھ لیجئے کہ ملک جموں کشمیر میں صحافت کا جنازہ نکل جائے گا اور… اور اس لئے نکل جائے گا کیونکہ صحافی … اصلی صحافی اب معدوم ہو رہے ہیں… Extinctہو رہے ہیں اور… اور اس لئے ہو رہے ہیں کہ جس صحافت میں یہ یقین رکھتے تھے… جن صحافتی اقدار کی کی وہ پروارش کررہے تھے… جن صحافتی اقدار کو انہوں نے پروان چڑھا یا تھا… وہ سب اب قصہ پارینہ ہے… وہ سب ہمیں اب تاریخ کے گرد آلودہ اوراق میں ملیں گے … کہ … کہ آج کا دور انہی ’جعلی‘صحافیوں کا ہے جن کیخلاف ڈی سی رام بن صاحب چاہتے ہیں کہ پولیس کارروائی کرے… ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ ڈی سی صاحب کی سوچ میں یقینا کوئی گڑ بڑ ہے ‘ اسی لئے تو وہ ان’ جعلی‘ صحافیوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت دے رہے ہیںکہ… کہ اور تو کوئی نہیں دے رہا ہے اور… اور اس لئے نہیں دے رہا ہے کہ وہ خود ان ’جعلی‘ صحافیوں کے رحم و کرم پر ہیں‘ ان آگے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں… انہیں بائٹس دیتے رہتے ہیں… انہیں اپنی شکل دکھاتے رہتے ہیں… ان میں بیوروکریٹ بھی ہیں ‘ سیاستدان بھی ہیں‘ سابق وزراء بھی ہیں ‘ سابق ایم ایل اے حضرات اور ایم پی صاحبان بھی ہیں… یہ سب ان’ جعلی‘ صحافیوں کو ہی صحافی مان کر انہیں اپنا جان کر ان سے جو کروانا چاہتے ہیں… کرا رہے ہیں… ‘اپنی تشہیر کا کام کرا رہے ہیںاور ایک ڈی سی رام بن ہیں جو اس بات کو سمجھ نہیں رہے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے ہیں ۔ رہی اصلی صحافیوں کی بات تو … تو صاحب ’صحافت ‘ کے اس مچھلی بازار‘ جہاں ہر طرف’ جعلی‘ صحافی چیختے چلاتے ہیں ‘وہاں ان کی آواز سنے گا کون… کہ… کہ ان کی آواز مچھلی بازار کے اس شور و غل میں دب کے رہ گئی ہے اور… اور سو فیصد رہ گئی ہے ۔ ہے نا؟