جس کشمیر پر ہمیں ناز تھا یہ وہ کشمیرنہیں۔کشمیر کے انداز فکر اور طرزعمل میں یہ تبدیلی محسوس بھی کی جارہی ہے اور دکھائی بھی دے رہی ہے۔ لیکن بُنیادی سوال یہی ہے کہ یہ تبدیلی آئی کیوں اور کیسے اور اس تبدیلی کے پیچھے کون سے عوامل اور اسباب کارفرما ہیں اس کا حتمی تعین گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ غوروفکر اور تجزیہ کے بعد ہی ممکن ہے۔
البتہ بادی النظرمیں اس تبدیلی اور پرانے کشمیرکی محرومی کے کچھ عوامل نظرآرہے ہیں۔ پرانے کشمیر میں جذبہ اخوت، مروت، باہمی یگانگت ، ہمسائیگی کا احترام اور دُکھ سکھ میں بلالحاظ امتیاز، فرقہ ، لسانیت، مذہب اور عقیدہ کے شرکت یا دوسرے الفاظ میں سراپا حصہ داری ، استحصال کانام ونشان نہیں، شہر وگام کے درمیان کوئی دیوارنہیں بلکہ سارا معاشرہ بحیثیت مجموعی قاضی گنڈ سے گھادن یار تک زندگی کے ہر شعبے کے تعلق سے ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند، امیر ہو یا غریب بازاروں تک ان کی یکساں رسائی، غرض اُس پرانے کشمیرمیں کیا نہیں تھا لیکن آنکھوں میں کھٹکنے والی کوئی بات نہیں تھی۔
کشمیر اور کشمیری عوام کے یہ سارے اوصاف حالیہ محض چند برسوں کے دوران حرف غلط کی طرح مٹتے اور معدوم ہو تے گئے۔ ان کی جگہ بے اعتنائی، بے مروتی، رقابت، ہمسایوں کے ساتھ قطع تعلق ، جذبات، احساسات اور نظریات کے ساتھ ساتھ بازار میں بکنے والی ہر شئے کے حوالہ سے استحصال کی نہ ختم ہونے والی لکیر مسلکوں اور عقیدوں اور غلیظ سیاسی نظریات کی بُنیاد پر تفرقہ، صبر وتحمل کا فقدان، مارکیٹ پر مختلف مافیاز کا بڑھتا راج اور کنٹرول، مخصوص اور منفردتشخص ، نظریات اور ارفع واصولوں کی پامالی کا روز مرہ کا معمول، معاشرتی سطح پر اخلاقی اور اقدار کی تنزلی، دھوکہ ،فریب، جعلسازی، دھونس ، دبائو اور جبر وقہر اب معیوب نہیں سمجھا جارہاہے۔
ہمارے اُس کشمیرمیں آسمان پر کچھ سیاہی نظرآتی تو ہمارے اسلاف یہ کہتے کہ کہیں نہ کہیں کوئی انہونی ہوئی ہے، اسی لئے آسمان نے رنگ بدل دیا ہے، کچھ دیر بعد پتہ چلتا کہ واقعی کوئی انہونی واقعہ ہوئی تھی لیکن آج کے بدلتے کشمیرمیں زمین انسانی لہو کو جذب بھی کرتی ہے اور آسمان بھی اپنا رنگ نہیں بدلتا، اسلح کا بے دریغ استعمال گناہ یا مجرمانہ نہیں سمجھا جارہاہے، دکاندار سے گاہک قیمتوں یا اشیاء کے معیار پرسوال کرنے کی جرأت کرے تو گاہک قاتلانہ حملے کا نشانہ بن جاتا ہے، میرے اُس کشمیر میں عفت وعصمت کا تقدس اور حرمت کو دین وایمان اوراخلاقی پاسبانی کا لازم وملزوم جز تصور کیاجاتا تھا لیکن اب صنف نازک کا تقدس اور حرمت کا پاس ولحاظ نہیں رکھا جارہاہے بلکہ معصوم کلیوں کی عفت وعصمت درندہ صفت خصائل کے حامی افراد کے ہاتھوں مسلنے کا رحجان ترقی پاتا جارہاہے۔
منشیات اور دوسرے نشہ آور ادویات کی کھپت تمام ریکارڈوں کو مات کرتی جارہی ہے۔لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس لعنت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے جبکہ گنتی جاری ہے ۔ بظاہر کشمیرمیں کسی بھی جگہ منشیات سازی کی کوئی فیکٹری موجودنہیں لیکن ہر سال اربوں روپے مالیت کی افیون، ہیروئن، گانجھا، چرس، فکی اور دوا کے نام پر بازاروں میں دستیاب نشہ آمیز ٹکیاں اور بوتلیں لت میں مبتلا افراد کے ہاتھوں پہنچ رہی ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں اور نہ کوئی قیاس ہے کہ یہ نشہ آور اشیاء افغانستان اور پاکستان سے سمگل کرکے کشمیرپہنچائی جارہی ہے، پھران کی بازاروں اور خریداروں تک رسائی کیلئے ایک منظم نیٹ ورک موجود ہے جو مختلف مافیاز کی سرپرستی اور قیادت میں سرگرم عمل ہے۔
کچھ حلقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کشمیر کی یہ تبدیلی گن کلچر کی پذیرائی کی ہی مرہون منت ہے۔ ممکن ہے تبدیلی کے جو بہت سارے کارن تصور کئے جارہے ہیں یہ ان میں ایک ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تبدیلی دوسرے کئی وجوہات کی بنا پر بھی آئی ہے۔ جب تک نہ آدم ذات اپنے انداز فکر اور طرزعمل میں تبدیلی لائے زمینی سطح پر تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ بُنیادی امر یہ ہے کہ کشمیرمیں سوچوں کا دھارا حالیہ برسوں میں بتدریج تبدیلی سے ہم کنار ہوتارہا۔ لوگوں کی مادی، معاشرتی اور اخلاقی ترجیحات میں بدلائو لایابھی جاتارہا جبکہ خود بھی سرزمین اس بدلائو کیلئے نم ہوتی رہی۔
اب یہ بدلابدلا کشمیراپنی پوری رفتار اور قوت کے ساتھ دوڑ رہاہے۔ اس کی یہ نئی منزل اُسے کہاں لے جاکر ٹپک دے کر لاکھڑا کرے گی، فی الوقت کچھ قطعیت کے ساتھ نہیں کہاجاسکتاہے لیکن مطلع پر جو آثار نظرآرہے ہیں وہ واقعی پریشان کن اور ان سے فکر مندی کے سوا کچھ بھی لاحق ہوتا محسوس نہیں ہورہاہے۔ بے شک اس بدلائو کے کچھ خارجی عنصر ،ر جحانات اور پسند اور ناپسندیدگی کا بھی عمل دخل ہے اور آبادی کا کوئی نہ کوئی حصہ ان خارجی اثرات کو غالباً اپنی نافہمی، ذہن وشعور کی ناپختگی لیکن سب سے زیادہ اپنے طفلانہ جذبات کی وجہ سے اپنے اُوپر حاوی ہونے دے رہے ہیں کیونکہ وہ ان خارجی اثرات کو قبول بھی کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا متاع بھی ! وہ صریح غلطی پر ہے ۔ ان کی اس فکر اور ترجیح کو ان کی غلط تعبیر کے زمرے میں شمار کیاجاسکتاہے۔
یہ بدقسمتی بھی ہے اورالمیہ بھی کہ کشمیر کے اس بدلائو کو دیکھتے اور محسوس کرنے کے باوجود کشمیرکی سیاسی اور مذہبی قیادت کے سبھی دعویدار بحیثیت مجموعی بھی اور انفرادی سطح پر بھی روکنے اور کوئی قدغن لگانے میں ناکام ہیں۔ وہ تقریریں کرتے ہیں، واعظ وتبلیغ کی مجلسیں بھی آراستہ کرتے ہیں لیکن معاشرتی اقتدار ، اصولوں اور کشمیر کے منفرد تشخص کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں ان کا کردار معذرت خواہانہ ، مفاد پرسانہ، منافقانہ اور جذبات کا استحصال کرنے سے ہی عبار ت رہا ہے۔
بہرحال جواس بدلے کشمیرکوپسندکرتے ہیں انہیں یہ کشمیر مبارک اور جو لوگ پرانے کشمیر کو لینڈسکیپ سے غائب سمجھتے ہیں وہ مایوس نہ ہوں بلکہ اللہ سے واپسی اور بحالی کی اُمید کا دامن نہ چھوڑیں۔