گمراہ کن نعرہ بازی، جھوٹ سے عبارت بیانات، تاریخی حقائق اور واقعات کو مسخ کرپیش کرنے ، حال اور مستقبل کے حوالہ سے غلط بیانی ،ریاکاری اور مکارانہ طرزعمل کے علاوہ اور بھی بہت کچھ رواں پارلیمانی انتخابات کے تعلق سے سرگرمیوں کے دوران کشمیر نشین سیاسی جماعتوں کا طرۂ امتیاز رہا جو کشمیر کے سنجیدہ فکر اور حساس حلقوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکا۔
مختلف سیاسی وغیر سیاسی اشوز کے تعلق سے جو نریٹوز سامنے لائے جاتے رہے ان میں سے ۹۰؍فیصد کا تعلق اگر ماضی سے ہے لیکن اُن معاملات کو مسخ اور سیاق وسباق سے ہٹ کرپیش کرکے اگران سیاسی جماعتوں سے یہ سوال کیاجائے کہ ایسا کرکے انہوںنے حاصل کیا کیا اور لوگوں کو اس سے حاصل کیا ہوا تو دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی تشفی بخش اور دلیل اور جواز پر مبنی کوئی معقول جواب نہیں ہوگا البتہ ریاکاری سے عبارت سیاسی طرزعمل کے تناظرمیں کچھ نہ کچھ جواز پیش کریں گے۔
عمومی نریٹو یہ رہا کہ روایتی اور خاندانی پارٹیوں نے کشمیری عوام کو گذرے برسوں کے دوران عوام کو جذباتی نعروںسے بہلا پھسلا کر گمراہ کیا، ان کے مسائل حل نہیں کئے، نئی نوجوان پود کو آگے بڑھنے اورترقی کے زینے طے کرنے سے روک لیا، آئینی ضمانتوں اور تحفظات کا تحفظ یقینی بنانے میںناکام رہے ، برعکس اس کے اپنے بارے میں اور اپنی کارکردگی اور رول کے حوالہ سے انہی میں سے کچھ مخصوص مگر حساس نوعیت کے اشوز جن میں سرکاری نوکریوںمیں مقامی نوجوانوں کی حصہ داری، اراضی کے ملکیتی حقوق کے تحفظ اور ترقیاتی عمل میں اپنے کردار کو کچھ اس طریقے اور انداز کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ جیسے اب کشمیرکے سارے حساس اور غیر حساس نوعیت کے معاملات اور مسائل حل کرلئے گئے ہیں، حالانکہ اکثر وبیشتر ان کی اپنی زبان پھسل جاتی ہے جس پر انہی مخصوص اشوز کے حوالہ سے کچھ اور ہی اداہوتا ہے۔
قطع نظر اس سوال کہ روایتی اور خاندانی پارٹیوں نے کیا کیا سوال کرنے والے ماضی قریب میں انہی خاندانی اور روایتی پارٹیوں کا حصہ رہے ہیں ،ا پنے چھوٹے قد کے سیاسی کیرئیر کو انہی پارٹیوںکے ساتھ وابستہ رہ کر پروان چڑھاتے رہے لیکن ان پارٹیوں پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان پارٹیوں سے وابستہ رہ کر کیا انہوںنے کبھی ان اشوز کو زبان دی ؟ ہمیں نہیں معلوم کہ روایتی سے مراد کیا ہے اور خاندانی سے مراد کیا ہے، اگر مراد یہ ہے کہ محبوبہ مفتی اپنے والد کی جانشین ہوئی یا فاروق عبداللہ اپنے والد شیخ محمدعبداللہ اور عمر عبداللہ اپنے والد فاروق عبداللہ کے جانشین کے طور پر سامنے آیا تو یہ کسی حدتک قابل فہم ہے۔ لیکن ڈاکٹر ، انجینئر ، تاجر، کاروباری وغیرہ کسی دوسرے شعبے سے وابستہ افراد جب ان کے بیٹے بیٹیاں بحیثیت ان کے جانشین سامنے آکر انہی پیشوں کو اختیار کرتے ہیں تو کیا انہیں بھی روایتی اور خاندانی کا طعنہ دیاجاسکتا ہے، پھر خود ان پارٹیوں میں جولوگ فی الوقت موجود ہیں ان میں کتنوں کے والدین سیاست سے وابستہ رہ چکے ہیں؟
کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں… نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ، اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس، ایسی پارٹیوں کو صف اول میں رکھتے ہوئے ان کی طرف سے پارلیمانی الیکشن کے دوران ان کے بیانات، دعوئوں الزامات اور جوابی الزامات اور سب سے بڑھ کر نعروں کا بغور جائزہ لیاجائے تو مایوسی کے سوا کچھ بھی محسوس نہیںہورہا ہے۔ ان بیانات اور دعوئوں نے اگرعوام کو کچھ دیا یا عوام نے کچھ حاصل کیا تویہی یاسیت ،سیاسی قیادت کے دعویداروں کی طفلانہ اور بچگانہ حرکتیں، انتشار اور خلفشار ، ذہنی الجھنیں ، تذبذب ، نفسیاتی اور اعصابی دبائو اور سیاسی ماحول کے تعلق سے خباثت کے زمروں میں ہی انہیں رکھا جاسکتا ہے۔
سیاسی قیادت کے دعویداروں سے عموماً یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح احوال کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے، عوام کی ترقیات، جسمانی، نفسیاتی ، ذہنی ،فکری اور تعلیمی نشوونما، خوشحالی اور فارغ البالی کو یقینی بنانے کی سمت میں ، جبکہ زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے روڑ میپ وضع کرے، سماجی بدعات اور سماج میںپھیلی بدکاریوں، کورپشن، بدعنوانیوں، سیاہ کاریوں اور لن ترانیوں کے خاتمہ کے خلاف خود بھی جہاد کریں اور معاشرے کو بھی ان مخصوص شعبوں کے تعلق سے جدوجہد کے راستوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دے، حال اور مستقبل کے حوالہ سے خود کو وقف کرے لیکن کشمیر کی سیاست ، کشمیر کی سیاسی اُفق اور کشمیرکے مخصوص حالات اور ماحولیات کے تناظرمیں یہاں کا سیاستدان سیاست کی آڑمیں اپنے لئے کورپشن، استحصال کے طور طریقے، دھونس دبائو کے مذموم راستوں کو اپنے لئے ہموار کرنے میں پہلے دن سے لگ جاتا ہے، ان کے یہ چونچلے کسی سے بھی پوشیدہ نہیں لیکن چونکہ سیاسی اور انتظامی سسٹم میںدیانتداری اور شفافیت سے عبارت احتساب اور جواب دہی کا فقدان ہے لہٰذا ہر ایک کے لئے عوام اوروسائل کا استحصال کرنے کی راہیں استوار ہیں!
پارلیمانی انتخابی نتائج کا اعلان مشکل سے ۱۵؍ دن کے فاصلے پرہے، کہا نہیں جاسکتا کہ کشمیرکے حوالہ سے نتائج کس کے حق میں سامنے آجائیں گے یا لائے جائیں گے (کیونکہ کچھ حلقے ابھی سے خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیں اور کچھ سیاستدانوں کی سرگرمیوں کے تعلق سے سوال بھی کررہے ہیں) لیکن کسی کا نریٹو ۳۷۰؍ کے حق میں ہے تو کسی کا اس کے خاتمہ کے دفاع میں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بند کتاب ہے جس کے پھر سے مستقبل قریب میںکھولے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ، لیکن سیاسی اور غیر سیاسی سطح پر نریٹو اسی کے اردگرد رکھاجارہاہے جبکہ عوام سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں۔
بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن نہ سرکاری سطح پر ان کے لئے نوکریوں کا کوئی دروازہ کھلا رکھاجارہاہے اور نہ ہی پرائیوٹ سیکٹر میںکوئی نوکری دستیاب ہے۔ اوسط شہریوں کی روزانہ آمدن اور وسائل گھٹے جارہے ہیں، فاقہ کشی کی نوبت آبادی کے کئی ایک طبقوں کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے، زمین کے ملکیتی حقوق چھین لئے جارہے ہیں ، بجلی ، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی دستیابی کا دامن ہر گذرتے دن کے ساتھ تنگ ہورہی ہے۔ کارخانے پیداوار کی مارکٹنگ سہولیات میں بدلائو اور بیرونی کارخانہ داروں کے لئے ترجیحی سہولیات کی فراہمی کے نتیجہ میں بند ہورہے ہیں جس کی طرف متعلقہ کاروباری انجمنوں نے ابھی حال ہی میں اشارہ بھی کیا ہے، ان کے علاوہ اور بھی کئی سنگین نوعیت کے معاملات ہیں جن کا تعلق روزمرہ کی معمولات زندگی سے ہے لیکن کشمیرکا چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والا سیاسی طبقہ اپنی ہی بدمستیوں میں مگن ہے، یہ معاملات اس کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے !