عین اس وقت جب سرینگر پارلیمانی حلقے میںووٹ ڈالنے میں محض چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے ایڈمنسٹریشن کی طرف سے چنائوی سرگرمیوں پرکچھ ایک پابندیوں کے احکامات صادر کئے گئے وہیں کشمیر نشین کم وبیش سبھی جماعتوں نے ایڈمنسٹریشن پر الزام لگایا کہ ان کی پارٹیوں سے وابستہ ورکروں، پولنگ ایجنٹوں اور سرگرم کارکنوں کو پولیس اسٹیشنوں میں قید کردیاگیا ہے۔ یہ الزام یا دعویٰ نہ صرف نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی جانب سے عائد کیاجاتا رہا بلکہ سجاد غنی لون اور سید الطاف بخاری کی جانب سے بھی عائد کیاگیا۔لیکن پولیس نے ایسے کسی دعویٰ یا الزام کی تردید کی اور کہا کہ پارٹیوں کی جانب سے لگائے جارہے الزامات کی کوئی بُنیاد نہیں۔
پولیس کے ترجمان نے اپنے تردیدی یاوضاحتی بیان میں کہا کہ پولیس امن وقانون کی پاسداری میں عہد بند ہے اور ضابطہ اخلاق کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ تاہم بیان میںکہا گیا کہ انفرادی طور سے ایک مخصوص پولیس آفیسر سے متعلق قیاس آرائی مذکورہ آفیسر کیلئے سکیورٹی رسک ہے۔ اس حوالہ سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کے سرینگر حلقے کے پارلیمانی اُمیدوار وحید پرہ نے اپنے بیان میں اے ڈی جی پی عہدے کے ایک آفیسر وجے کمار کا نام لیا جو بقول ان کے کارکنوں کی گرفتاریوں میں ملوث ہے۔
البتہ ان سارے بیانات، وضاحتوں اور دعوئوں کے تناظرمیں بی جے پی سے منسوب ایک عہدیدار نے کچھ ہٹ کر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پولیس ان لوگوں کوگرفتار کررہی ہے جو بالا زمین ورکر ہیں اور جو بائیکاٹ مہم چلانے میںملوث پائے گئے ہیں ۔ حکمر ان جماعت سے وابستہ اس شخص کو بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی وہ اپنی مجبوری خود بتاسکتا ہے البتہ اس کے اس بیان سے جو سگنل باہر عوام تک پہنچ رہا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن ہویا پولیس حکمران جماعت کی ہی تابع ہے اور وہی کرتی ہے جس کی ہدایت انہیں پارٹی سطح پر دی جارہی ہے جبکہ اس پارٹی نے کشمیر کے کسی ایک بھی پارلیمانی حلقے سے اپنا کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ’ہم خیال ‘ کی حمایت کے نام پر چنائو مہم میں برابر کی شریک رہی ہے۔ اس حوالہ سے ضابطہ اخلاق میں کیا کچھ موجود ہے اور کیا نہیں اس بارے میں چنائو کمیشن ہی اپنی مخصوص خاموشی کے تعلق سے کچھ بتاسکتا ہے۔
چنائو کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عائد الزامات یا دعوئوں پر کسی طرح کی کوئی لب کشائی نہیں کی، ایڈمنسٹریشن ؍پولیس کی جانب سے جاری وضاحت یا تریدی بیان کی ضرورت تو قابل فہم ہے لیکن الزامات یا دعوئوں کے بارے میںچنائو کمیشن کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ الزامات کا نوٹس لے اور ایڈمنسٹریشن سے جواب طلب کرکے یہ معلوم کرے کہ کیوں عین آخری لمحات میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ پولنگ ایجنٹوں اور ورکروں کی پکڑ دھکڑ کی گئی۔ اس تعلق سے چنائومیدان میں موجود کچھ پارٹیوں اوران کے اُمیدواروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اسی طرح کا مخصوص طرز عمل ۱۹۸۷ء میں انتخابات کے دوران روا رکھا گیا جس کے بطن سے کچھ ہی دنوں کے اندر کشمیر لہورنگ نظرآیا جس صورتحال پر ابھی تک سالہاسال گذرنے کے باوجود مکمل طور سے قابو نہیں پایا جاسکا۔
سرینگر پارلیمانی حلقے کے پی ڈی پی اُمیدوار وحید پرہ نے اپنے بیا ن میں انتباہ دیا کہ’’بی جے پی کی قیادت میں حکومت ۱۹۸۷ء کے طرز پرالیکشن فراڈ کاراستہ اختیار نہ کرے کیونکہ اگر ایسا کیاگیا تو اس سے سنگین نتائج (تباہی) کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں‘‘۔ پرہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’’ہم حکومت سے کسی امداد یا حمایت نہیں چاہتے لیکن وزیراعظم اور وزیرداخلہ کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سرپرست سید الطاف بخاری کے جھوٹ کے بہکاوے میںنہ آئیں، یہ دعویٰ بھی کیا کہ بخاری ہی کی ہدایت پر اس کی پارٹی کے ورکروں کو گرفتار کیاجارہاہے۔
خو د سید الطاف بخاری کادعویٰ یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے ورکروں کو گرفتار کیاجارہاہے۔ بیان میںاس صورتحال پر اپنی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے الطاف بخاری نے کہا کہ ورکروں اور ایجنٹوں کی گرفتاریوں کا مقصد الیکشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے ہے۔ انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرے غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخاب کو یقینی بنا کر خطے میں جمہوریت کی آبیاری کریں ۔بخاری کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساز باز کرکے مخالف پارٹیوں کے ورکروں اور ایجنٹوں کو ہراساں کرارہی ہے۔
اس سارے تناظرمیں جموںوکشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر نے اپنے بیان میں کہا کہ بعض سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ورکروں کو ہراساں کرنے کی سوشل میڈیا پر بیانات کانوٹس لیاگیا ہے اور معاملہ چنائو کمیشن کی نوٹس میں لایاگیا ہے۔ چنائوی سرگرمیوں کی سرنو ترتیب کے تعلق سے مختلف پارٹیوں کے بیانات کا بھی چیف الیکٹورل آفیسر نے حوالہ دیا اور کہا کہ بغیرکسی امتیاز کے ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔
چنائو کمیشن کی نوٹس میں معاملات لائے گئے لیکن چنائو کمیشن بدستور خاموش ہیں۔ وہ کب ان معاملات پر کارروائی کرے گا، اُس وقت جب الیکشن کے حوالہ سے تمام مراحل اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیںگے، فوری طور سے کیوں نہیں ؟ چنائو کمیشن کا یہ رویہ اور طریقہ کار خود اس کے وضع کردہ اور ترتیب شدہ ضابطہ اخلاق کے منافی ہے۔ کمیشن کی بے اعتنائی سست روی، تساہل یا مصلحت ہی ہے جو کشمیر میںاس مخصوص کمیشن پر عدم اعتماد اور عدم بھروسہ کے تسلسل کا باعث بن چکا ہے۔ کیونکہ چنائو کمیشن نے کشمیرکے تعلق سے کسی بھی مرحلہ میںماضی میںغیر جانبدارانہ رویہ اور طرز عمل اختیار نہیں کیا، اگر کیا ہوتا تو ۱۹۸۷ء کے الیکشن یا اس سے قبل کے انتخابات کو فراڈ، جانبدارانہ ،اندھی سیاسی مصلحتوں کے تابع اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کا جنازہ نکالے جانے سے منسوب نہیںسمجھے جاتے اورنہ ہی ۸۷ء میںسخت کارروائی کرنے کا راستہ اگر اختیار کیا گیا ہوتا تو کشمیر عسکریت کی لپیٹ میں نہیںآتا۔ اُس مخصوص صورتحال کا براہ راست ذمہ دار چنائو کمیشن ہی نہیں بلکہ اُس وقت کا وہ سینئر پولیس آفیسر خاص طور سے ذمہ دار رہا جس کو کشمیر میںتعیناتی کے دوران نئی دہلی نے مقامی معاونت سے سیاہ وسفید کا مالک بنایا گیا تھا۔