جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکے حوالہ سے دہشت گردانہ سرگرمیوں اور ان سے وابستہ افراد اور اداروں کے ساتھ ساتھ ایکو سسٹم کو جڑ سے پھینکنے کی تسلسل کے ساتھ جاری کارروائیوں اور اقدامات جن میں مبینہ وابستگی کی بُنیاد پر نجی املاک اور جائیدادوں کو سر بہ مہر کرنے کے معاملات خاص طور سے قابل ذکر ہیں کے تناظرمیں کچھ کشمیر نشین سیاست کار ایک نئے نعرے اور نریٹوکے ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں کہ کشمیرمیں مذہبی آزادی دوسرے الفاظ میں مذہبی اظہار رائے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی شرط صرف یہ ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھ آجائے۔
اس بات کو تسلیم کیاجارہاہے کہ الیکشن گہما گہمی کے تعلق سے سیاستدان اپنے نظریاتی مفادات اور اہداف کی تکمیل کیلئے کسی بھی نریٹو کے ساتھ لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں ، لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی غرض سے وعدوں اور یقین دہانیوں کے ہمالیہ کھڑے کرتے ہیں، خود کو عوام کا مسیحا کے طور پیش کرکے اور خود کو تمام تر دنیاوی آلائشوں، بدکاریوں، سیاہ کاریوں ، لن ترانیوں وغیرہ سے پاک وصاف دودھ کا دھلا جتلا کر ہمدردیاں حاصل کرنے کی لمبی لمبی چھلانگیں مارتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی کو اگر شو مئے قسمت باالخصوص سادہ لوحی کے پیش نظریا اندھی مصلحتوں کے تابع اعتماد اور منڈیٹ تفویض کرکے برسراقتدار لاتے ہیں تو برسراقتدار آتے ہی وہ اپنے باطن کے ساتھ ظاہر ہوجاتا ہے ، اس کے تمام تر دعویٰ اور وعدے قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
لیکن الیکشن کے تعلق سے اس گہما گہمی کے تناظرمیں بعض سیاستدانوں کے جو بیانات سامنے آرہے ہیں وہ بیانات ان پالسیوں ، اقدامات اور فیصلوں کی ضد ہے جو مرکزی حکومت گذشتہ کچھ سالوں سے کشمیر کے حوالہ سے باالخصوص دہشت گردانہ سرگرمیوں کے تعلق سے لیتی رہی ہے۔ کئی مذہبی ، غیر مذہبی، سیاسی ونیم سیاسی تنظیموں سمیت کم وبیشتر سبھی عسکری تنظیموں اور ان کی سرپرستی کرنے والی تنظیموں ؍افراد کو ممنوعہ قرار دیاجاتارہا ہے اور منی لانڈرنگ ، حوالہ ، دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے سرمایہ کی فراہمی میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف مروجہ قوانین کی روشنی میں تادیبی کارروائیوں کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ سی بی آئی، این آئی اے وغیرہ نامی تفتیشی اداروں کی طرف سے ۷x۲۴چھاپہ ماری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں، اس کے حوالہ سے ایکو سسٹم اور معاونتی کردار ادا کرنے والوں کے خلاف اقدامات بغیر کسی رکاوٹ اور تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
لیکن ووٹ بینک کی سیاست کا بھوت کچھ کشمیرنشین سیاسی جماعتوں کے سراب چڑھ کر بولنے لگ گیا ہے اور بار بار ماضی قریب میں کشمیر کی تباہی وبربادی اورمعاشرتی سطح پر انتشاری کیفیت برپا کرنے والوں کو اب اپنے نظریاتی تناظرمیں دودھ کا دھلا کے طور پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے، پارٹی کا حصہ بن جانے یہاں تک کہ ان کے لئے مذہبی آزادی کا کھل کر اظہار کرنے کی آزادی کی پیش کش کرکے نہ معلوم کشمیر کے لئے کس نوعیت اور ہیت کا نیا فلڈ گیٹ کھولنے کے راستے ہموار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیاگیا ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا، لیکن کیا کہاجائے ، تلخ تاریخی یادیں، معاملات، حالات واقعات کب کسی کے ذہن سے محو ہوئی ہیں کیونکہ بنی نوع انسان اور ان یادوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ووٹ بینک کی جس سیاست کاری کا کچھ کچھ کھیل فی الوقت کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ماضی میں بھی اسی طرز کی سیاست اور ووٹ بینک سے وابستہ سیاہ کاریوں کا راستہ اختیار کیا جاتارہا ہے۔
۱۹۷۲ء میں الیکشن کے دوران کانگریس نے کشمیرکے حوالہ سے اپنی بدبختانہ سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے اسی نیم سیاسی نیم مذہبی جماعت کو اپناکاندھا دے کر اس کے چار نمائندوں کو ریاستی اسمبلی کی رکنیت سے نوازا تھا۔کانگریس کی اس مخصوص سیاسی کاریگری کے بطن سے بعد کے آنے والے برسوں کے دوران کیا کچھ جنم نہیں پاتا گیا وہ نہ محتاج وضاحت اور نہ محتاج بیان ہے۔
مفتی محمدسعید مرحوم نے اقتدار میں آنے کیلئے اسی نیم سیاسی نیم مذہبی جماعت کا کاندھاحاصل کیا، اس حوالہ سے درجنوں قصے کہانیاں حالیہ ایام تک زبان زدعام رہی ہے او راب جبکہ اس مخصوص فکر کی جماعت کے خلاف حکومت پیہم کارروائیوںکاسلسلہ جاری رکھے ہوئی ہے کشمیر نشین مرحوم بخشی غلام محمد کی سیاست کے ثانی کاکرداراور رول اداکرنے کی خواہش رکھنے والے سیاستدان اس مخصوص فکر کی جماعت کو اپنے گلے کا ہار بنانے کیلئے اُتاولے نظرآرہے ہیں۔
کیا وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک نشست حاصل کرنے اور آئندہ کسی وقت اسمبلی انتخابات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس ممنوعہ محاذ کو نئے سرے سے روح پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے یا کوئی ان دیکھی قوت اس کے پیچھے تاریں ہلانے کیلئے میدان میں کود پڑی ہیں؟ بادی النظرمیں گہرائی سے دیکھا اور غور کیاجائے تو اوسط کشمیری کیلئے یہ کوئی اشو یا نزاعی معاملہ نہیں ہے کہ اسے الیکشن نریٹو کے طور پر سامنے کردیا جائے۔ کیونکہ کشمیری عوام کو جن سنگین نوعیت کے معاملات کاسامنا ہے اور جو ہرگذرتے ایام کے ساتھ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں کوئی ایک بھی کشمیر نشین سیاسی جماعت اور ان جماعتوں سے وابستہ لیڈران ان عوامی اشو ز کو نہ ایڈریس کررہاہے اور نہ ہی ان اشو ز کو بطور نریٹو کے اختیار کرتانظرآرہاہے۔
برعکس اس کے ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کا پاجامہ نکالنے کی سعی لاحاصل میں غرق نظرآرہی ہے جبکہ ہر سیاست کار کو اچھی طرح سے معلوم ہے اور احساس بھی کہ عوام الناس ان مردوں کو اُکھیڑنے میں کوئی دلچسپی نہیںرکھتے، وہ مہنگائی، بے روزگاری ، زندگی کے ہر شعبے کے حوالہ سے محرومی، بجلی اور پانی کی بہم رسانی ، سڑکوں کی خستہ حالی ، غذائی اجناس اور ادویات میں ملاوٹ کے سنگین مضمرات سے جھوج رہے ہیں لیکن سیاست کار صرف اور صرف الیکشن کی راگنی کے چرنوں میں سجدہ ریز ہورہے ہیں۔