سرینگر//
پیپلز کانفرنس کے سربراہ‘ سجاد لون نے کہا ہے کہ دفعہ۳۷۰ کی منسوخی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ایک غلطی ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہ کرنے سے جموں و کشمیر کی قومی دھارے کی جماعتوں کیلئے حالات سیاسی طور پر بدتر ہوجاتے۔
بارہمولہ سیٹ سے لوک سبھا انتخابات لڑ رہے علیحدگی پسند سے قومی دھارے کے سیاست داں بننے والے لون نے کہا کہ نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی بات کرکے لوگوں کو بیوقوف بنا رہی ہے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ نیشنل کانفرنس انڈیا بلاک کا حصہ ہے ، لون نے کہا کہ اگر پارٹی اپوزیشن گروپ کو آرٹیکل ۳۷۰ کو بحال کرنے کا عوامی طور پر وعدہ کرنے پر مجبور کرتی ہے تو وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے مرکز کے ۵؍اگست ۲۰۱۹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا، جس نے سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا۔
پی ٹی آئی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں لون نے کہا کہ اگر قومی دھارے کی جماعتیں قانونی چارہ جوئی سے دور رہتی تو مرکز اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے لئے کسی کو بھی سہارا دے سکتا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا عدالت سے رجوع ہونا ایک غلطی تھی، لون نے پی ٹی آئی کو بتایا’’میں نہیں جانتا، یہ ہو سکتا ہے۔آپ دیکھتے ہیں کہ ہم (کشمیر میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں) مل کر کام کر سکتی تھیں اور کہہ سکتی تھیں کہ ہم اسے کسی اور دن کے لیے بچائیں۔ لیکن یہ کسی اور کو سپریم کورٹ جانے سے نہیں روک سکتا تھا‘‘۔
لون نے کہا کہ مرکز اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کیلئے کسی کو بھی سہارا دے سکتا تھا اور اگر جموں و کشمیر میں قومی دھارے کی جماعتیں قانونی چارہ جوئی سے دور رہتی تو اس سے ان کیلئے حالات سیاسی طور پر بدتر ہوجاتے۔انہوں نے کہا’’کل کہو، وہ عدالت جانے کے لیے کسی کو منتخب کرتے ہیں… عدالت کا فیصلہ حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے دور رہنے سے گھر میں ہمارے لئے سیاسی طور پر حالات بدتر ہو جاتے‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ نے کہا ’’لیکن یہ کہنا کہ اگر ہم عدالت میں نہیں جاتے تو فیصلہ نہیں آ سکتا تھا، یہ بھی سچ نہیں ہے، وہ (دہلی) کسی شخص کو عدالت جانے کے لیے کہہ سکتی ہے‘‘۔
جموں و کشمیر میں پیپلز کانفرنس، نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دائر عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ایک عارضی شق تھی‘جس سے مرکز کے فیصلے پر مہر ثبت ہوئی۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ حلقہ سے لوک سبھا الیکشن لڑ رہے لون نے کہا کہ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو جو کچھ ہوا اس کے پس منظر میں وہ پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز پارلیمنٹ میں گونجنی چاہئے۔
پیپلز کانفرنس سربراہ نے کہا’’میں ایمانداری سے مانتا ہوں کہ جموں و کشمیر کے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ۲۰۱۹ کے بعد ان کی آواز سنی جائے۔ اگر میں منتخب ہوا تو میں وہ آواز بنوں گا۔
لون نے کہا ’’ہم ایک ڈیجیٹل دنیا میں رہتے ہیں، اور پارلیمنٹ سب سے بڑا، سپریم آئینی پلیٹ فارم ہے جو آپ کے پاس ہوسکتا ہے اور میں اسے ملک کے باقی حصوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آپ کے پاس پورے ملک سے رکن پارلیامان ہیں، آپ کے پاس کشمیر کے بارے میں، یہاں جو غصہ ہے، ظلم و ستم کے بارے میں، غلطیوں کے بارے میں بہت سی ناقابل بیان کہانیاں ہیں۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ نے کہا’’یقینا بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سب کچھ غلط ہے، لیکن بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کے لوگ بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے سننے کے مستحق ہیں‘‘۔
بارہمولہ سیٹ پر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کے خلاف میدان میں اترنے والے لون نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دفعہ ۳۷۰ کو بحال کرنے کی بات کرکے لوگوں کو بیوقوف بنا رہی ہے۔
لون نے کہا’’وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ اگر کشمیر کے لوگ انہیں تین نشستوں کا مینڈیٹ دیں گے تو وہ اس شناخت کو کیسے واپس حاصل کر سکیں گے۔ لوک سبھا میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے کیلئے آپ کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ نے کہا’’وہ (نیشنل کانفرنس) انڈیا بلاک کا حصہ ہے۔ کیا اتحاد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہوتی ہے تو وہ جموں کشمیر کی شناخت بحال کریں گے یا وہ (آرٹیکل) ۳۷۰ یا ۳۵ اے یا داخلی خودمختاری کو بحال کریں گے؟‘‘
لون نے کہا کہ اگر نیشنل کانفرنس آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کیلئے انڈیا بلاک سے عوامی عہد کرواتی ہے تو وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔انہوں نے کہا’’میرے الفاظ کو نشان زد کریں‘ اگر وہ آج بیان جاری کرتے ہیں تو میں اپنے (کاغذات نامزدگی) واپس لے لوں گا۔لیکن، اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو انہیں (این سی کو) جھوٹ بولنا بند کر دینا چاہیے۔‘‘