سرینگر//
نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کی طرف سے سجاد غنی لون کو ’سابق جنگجو‘قرار دینے کے بعد پیپلز کانفرنس نے بھی جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔
پیپلز کانفرنس کا الزام ہے کہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق نے اخوان کی ساتھ ’شراکت داری‘ اور جو کچھ در پردہ کروایا اس سے بالی ووڈ کا تیسرے گریڈ کا ولن بھی شرمسار ہوگا۔
بتادیں کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق رکن اسمبلی ‘جاوید رانا نے دو روز قبل ضلع پونچھ کے مینڈھر علاقے میں ایک ریلی کے دوران پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ کی موجودگی میں پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون کو سابق جنگجو قرار دیا۔
پیپلز کانفرنس نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں نیشنل کانفرنس پر جوابی حملے کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیشنل کانفرنس کی عادت ہے کہ وہ ہمیں کشمیر میں نئی دلی کا آدمی قرار دیتی ہے اور جموں میں جنگجو کہتی ہے اور جب وہ دلی میں ہوتے ہیں تو وہاں ہمیں پاکستانی قرار دیتے ہیں۔
پیپلز کانفرنس نے الزام لگایا’’اس بہتانی مہم کے ذریعے نیشنل کانفرنس نے سینکڑوں کشمیریوں کو قتل یا جیلوں میں ڈالا اور یہاں کبھی کسی کو پھلنے پھولنے نہیں دیا‘‘۔انہوں نے کہا’’اگر نیشنل کانفرنس’کس نے کس کو مارا‘ کے موضوع پر بحث کرنا چاہتی ہے تو ہم اس کیلئے تیار ہیں‘‘۔
پارٹی نے ایک ٹویٹ میں کہا’’کیا وہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نہیں تھے جس نے اخوان کے ککہ پرے کے ساتھ مشترکہ ریلی منعقد کی اور کیا یہ وہی ککہ پرے نہیں ہے جس کے نام درجنوں قتل ہیں‘‘۔
پارٹی نے ٹویٹ کرکے کہا’’ڈاکٹر فاروق نے بحیثیت وزیر اعلیٰ کیا حکم دیا اور کتنے کشمیری مسلمانوں کو اس نے مارا یہ الگ بات ہے لیکن اس کی اخوان کے ساتھ شراکت داری اور اس نے در پردہ جو کچھ کروایا اس سے بالی ووڈ کا تیسرے گریڈ کا ولن بھی شرمسار ہوگا‘‘۔
پیپلز کانفرنس کا مزید کہنا تھا’’ہم نے ہمیشہ تشدد کے تمام صورتوں کی مذمت کی ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے ہم دہشت گردوں کے تشدد کی بھی مذمت کرتے ہیں ہم سٹیٹ وائیلنس کی بھی مذمت کرتے ہیں اور ہم نے کشمیری پارٹیوں کے تشدد کی بھی مذمت کی جب وہ اقتدار میں تھیں اور ہم نے پیلٹ کے استعمال کی بھی مذمت کی‘‘۔
پی سی کا ایک اور ٹویٹ میں کہنا تھا’’ہم کشمیر میں انسانی زندگی کے تقدس کو پامال کرنے کی بھی مذمت کرتے ہیں بمہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ (این سی) کس کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔
ٹویٹ میں مزید کہا گیا’’مہربانی کرکے اس چیز کی مذمت نہ کریں جس کے ارتکاب میں آپ خود ملوث ہیں وہ مذمت کی توہین ہے تشدد کرنے والے تشدد کی مذمت نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘