سرینگر//
جموںکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ منگا شیرپا اور ایس ایس پی بارہمولہ امود اشوک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بند کر دی جب دونوں ہدایت کے مطابق عدالت میں ذاتی طور پر حاضر ہوئے ۔
عدالت نے کہا کہ جب بھی کسی نظر بند کی نظر بندی کو ختم کیا جاتا ہے تو حکومت کو یہ بات یقینی بنانی ہے کہ نظر بند شخص کو وقت ضائع کئے بغیر حراست سے رہا کیا جائے ۔
عدالت نے یہ مشاہدات ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ اور ایس ایس پی بارہمولہ کے خلاف توہین عدالت کی عرضی کے میں پیش کئے جنہوں نے عدالت عالیہ کے احکامات کے باوجود ایک نظر بند کی رہائی کو یقینی نہیں بنایا جو۷۹دنوں تک غیر قانونی حراست میں رہا۔
ہائی کورٹ نے عدالت میں موجود دونوں افسروں کو نظر بند کی زندگی کے۷۹دنوں کے زیاں پر اپنے تشویش سے آگاہ کیا جو بغیر کسی قانونی بنیاد کے احتیاطی حراست میں رہا۔
جسٹس راہول بھارتی کی سنگل بنچ نے۲۶ مارچ کو اپنے حکم میں مشاہدہ کیا کہ نظر بند نے عدالت کی مداخلت پر رہائی حاصل کی جب درخواست گذار موجودہ توہین عدالت کی عرضی جس میں اس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ۳۰دسمبر۲۰۲۳کے فیصلے کے مطابق احتیاطی نظر بندی ختم ہونے کے باوجود بھی اس کو حراست سے رہا نہیں کیا گیا ہے ، دائر کرنے کیلئے آیا۔
جسٹس بھارتی نے منیب رسول شنوائی کی طرف سے اپنے وکیل کے ذریعے دائر توہین عدالت کی عرضی کو نمٹاتے ہوئے مشاہدہ کیا’’عدالت امید کرتی ہے کہ آگے جب بھی کسی نظر بند کی نظر بندی ختم ہوگی تو اس طرح کی صورتحال کو نہیں دہرایا جائے گا اور حکومت جموں وکشمیر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ نظر بند کو بغیر وقت ضائع کئے بغیر حراست سے رہا کرے گی‘‘۔
عدالت نے ۱۸مارچ کے حکم کے مطابق درخواست گذار کو اپنی ذاتی آزادی بحال کرنے کی اجازت دی اور اس کے بعد متعلقہ ضلع مجسٹریٹ اور ایس ایس پی کے خلاف دائر توہین عدالت کی عرضی کو ختم کر دیا۔
تاہم عدالت نے یہ واضح کیا کہ درخواست گذار نظر بندی کے حکم کو منسوخ کرنے کے بعد قصور وار اہلکار یا اتھارٹی کے خلاف غیر قانونی حراست میں رکھنے کیلئے مناسب قانونی علاج حاصل کرنے کیلئے آزاد ہے ۔