سرینگر//
جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جو مسلسل۷ برس سے زائد عرصے سے کام کرنے والے عارضی ملازمین کو متعلقہ ایس آر او کے تحت ریگولرائزیشن کے فائدے سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ مشاہدات جسٹس سنجیو کمار نے یونیورسٹی کے ایک ملازم کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کئے، جس میں درخواست گزار نے مستقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا کہ اگرچہ اس کی خدمات کو فوری طور پر۲۵ مارچ۲۰۱۰ کے حکم نامے کے ذریعے باقاعدہ بنایا گیا تھا، پھر بھی یونیورسٹی کے ذریعہ اپنائے گئے، ایس آر کی دفعات کے مطابق سال ۲۰۰۴ میں۷ برس کی سروس کی تکمیل کے بعد مستقل کا وہ حق دار تھا لیکن نہیں کیا گیا۔
جسٹس کمار نے کہا کہ جو شخص عارضی طور پر کام کرتا ہے اور اسے وقتاً فوقتاً حکومت کی طرف سے منظور شدہ نرخوں پر اجرت دی جاتی ہے اور مسلسل سات برس سے زائد عرصے تک اپنی خدمات انجام دیتا ہے اسے کسی بھی صورت میں عارضی یا کیجول لیبر نہیں کہا جاسکتا ہے اور ۱۹۹۴ کے ایس آر او ۶۴ کے تحت اسے مستقل کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ سابق ریگولرائزیشن درخواست گزار کو دیا گیا۔ اس مرحلے پر جب وہ سروس سے ریٹائر ہوچکا ہے۔یونیورسٹی کے کسی بھی ملازم کے سروس کے حقوق کو بری طرح متاثر نہیں کرے گا۔
ایسے میں جسٹس کمار نے کہا کی عام طور پر ایک رٹ پٹیشن جس میں سروس کے فوائد کے حصول کے لیے کئی برس کے بعد کارروائی کی وجہ سے جمع کیا جاتا ہے۔ رٹ کورٹ کی طرف سے غور نہیں کیا جاتا ہے،تاہم مذکورہ معاملے کے حیران کن حقائق دیکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس درخواست میں عرضی گزار کی طرف سے درخواست کی گئی راحت دینے میں اس عدالت کی راہ میں تاخیر نہیں ہوگی۔