نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے منگل کو شہریت ترمیمی قانون یا سی اے اے کے نفاذ پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے حکومت کو اس قانون کو چیلنج دینے والی۲۳۷ درخواستوں پر جواب دینے کیلئے۸؍ اپریل تک تین ہفتے کا وقت دیا ہے۔
اس معاملے کی اگلی سماعت۹؍ اپریل کو مقرر کی گئی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد مرکزی حکومت کو جواب دینے کی ہدایت دی۔
بنچ نے مرکزی حکومت کو سی اے اے ایکٹ اور قواعد کے تحت شہریت دینے سے روکنے کی ہدایت دینے کی عرضی گزاروں کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’ہم کسی بھی ابتدائی نقطہ نظر کا اظہار نہیں کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے عدالت کو نوٹس جاری کیا۔ مرکزی حکومت نے انہیں تین ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی۔
بنچ کے سامنے مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے جواب دینے کے لیے چار ہفتے کا وقت دینے کی استدعا کی۔ انہوں نے بنچ کے سامنے کہاکہ ’’۲۳۷درخواستیں ہیں جن میں سی اے اے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔۲۰درخواستیں دی گئی ہیں۔ مجھے جواب داخل کرنے کیلئے وقت چاہئے ۔ ایکٹ (سی اے اے ) کسی کی شہریت نہیں چھینتا ہے ۔ درخواست گزاروں کے ساتھ کوئی تعصب نہیں ہے ‘‘۔
وہیں سینئر وکیل کپل سبل، اندرا جیسنگ اور وجے ہنساریا، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے ، نے مرکز کی طرف سے چار ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کی مخالفت کی۔
وکیلوں نے بار بار بنچ سے درخواست کی کہ وہ سالیسٹر جنرل مہتا سے یہ بیان دینے کو کہے کہ اس دوران (درخواستوں پر فیصلہ آنے تک) کسی کو بھی شہریت نہیں دی جائے گی کیونکہ ایک بار شہریت مل جانے کے بعد پورا عمل ناقابل واپسی ہے اور معاملہ بے معنی ہوجائے گا۔
اس پر سالیسٹر جنرل مہتا نے کہا کہ میں کوئی بیان دینے نہیں جا رہا ہوں۔
بنچ کے سامنے بحث کرتے ہوئے سینئر وکلاء سبل اور جے سنگھ نے کہا کہ اس سے قبل جب سپریم کورٹ نے ۲۲جنوری۲۰۲۰کو اس معاملے میں مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا، اس نے اسٹے کے سوال پر غور نہیں کیا تھا، کیونکہ اس وقت تک سی اے اے سے متعلق کوئی نوٹیفائڈ نہیں کیا گیا تھا۔
سبل نے کہا’’چار سال بعد۱۱مارچ کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اگر کسی کو شہریت مل جاتی ہے تو یہ ناقابل واپسی ہو گی۔ آپ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔ یہ بے اثر ہو جائے گا‘‘۔
سینئر ایڈوکیٹ جے سنگھ نے یہ بھی کہا کہ اس (سی اے اے ) کو اس وقت تک روک دیا جانا چاہئے جب تک عدالت اس کیس کی سماعت نہیں کرتی۔
درخواست گزاروں کے وکلاء کے بار بار دلائل پر بنچ نے کہا کہ شہریت دینے کا بنیادی ڈھانچہ ابھی تک تیار نہیں ہوا ہے ۔
ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا نے بنچ کے سامنے کہا کہ آسام کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے عمل سے۱۹لاکھ افراد کو خارج کر دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے علاوہ سبھی شہریت کے لیے درخواستیں داخل کر سکتے ہیں، جس پر کارروائی کی جا سکتی ہے ۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر بھی غور کرنے کا فیصلہ کیا۔
عرضی گزاروں کے دلائل سننے کے بعد بنچ نے مرکز کو نوٹس جاری کیا اور۹؍اپریل کو معاملہ درج کرنے کی ہدایت دی۔درخواستیں انڈین یونین مسلم لیگ اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں۔
۱۵مارچ کو سپریم کورٹ نے انڈین یونین مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والے سبل کی درخواست کو جلد سماعت کیلئے قبول کرتے ہوئے ۱۹مارچ کو کیس کی فہرست دینے کی ہدایت کی تھی۔عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ موجودہ رٹ پٹیشن پر فیصلہ آنے تک کسی بھی مذہب یا فرقے کے رکن کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
عرضی میں مرکزی حکومت کو شہریت ترمیمی قواعد۲۰۲۴؍اور متعلقہ قوانین یعنی شہریت ایکٹ۱۹۵۵‘پاسپورٹ ایکٹ۱۹۲۰‘ غیر ملکی قانون۱۹۴۶ اور اس کے تحت بنائے گئے کسی بھی قواعد یا احکامات کے تحت کسی کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے ۔
سی اے اے ان افراد کو شہریت دینے کی تجویز کرتا ہے جو افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی یا عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور۳۱دسمبر۲۰۱۴کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔