نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے دسمبر ۲۰۲۳کی (ترمیم شدہ) قانونی دفعات (جس میں چیف جسٹس کی جگہ کسی مرکزی وزیر کو تعینات کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے ) کے تحت متعدد الیکشن کمشنروں کی تقرری پر فوری روک لگانے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے ۔
جمعہ کو اختلاف رائے پر عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت۲۱مارچ کو کرے گی ۔
دو الیکشن کمشنروں کی تقرری پر روک لگانے کی درخواست پر جسٹس سنجیو کھنہ، دیپانکر دتا اور آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی دو بار سپریم کورٹ کے سامنے آچکا ہے ۔ عدالت عام طور پر کسی بھی قانون کو عبوری حکم کے ذریعے روک نہیں لگاتی ۔
عدالت عظمیٰ میں درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے آئینی بنچ کے فیصلے (عدالت عظمیٰ کے ) کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کے عہدوں پر تقرری چیف جسٹس پر مشتمل ایک پینل کے ذریعے کی جانی چاہیے ، جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل ہوں ۔
سنگھ کی عبوری ہدایات کی درخواست پر جسٹس کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ آئینی بنچ نے اس وقت کہا تھا کہ عدالت کی طرف سے تجویز کردہ پینل کو اس وقت تک تشکیل دیا جانا چاہئے جب تک اس سلسلے میں پارلیمنٹ سے کوئی قانون منظور نہیں ہو جاتا۔
ایڈوکیٹ سنگھ نے تاہم زور دیا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ عدالت کا حتمی حکم تھا کہ تقرری وزیراعظم، چیف جسٹس اور قائد حزب اختلاف پر مشتمل پینل کرے گا۔
اس کے بعد تین رکنی بنچ نے کہا کہ وہ۲۱مارچ کو دو الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
خیال رہے کہ۱۴مارچ کو ریٹائرڈ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) افسران گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو کو وزیر اعظم، مرکزی وزیر قانون اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر پر مشتمل ایک پینل نے الیکشن کمشنر مقرر کیا تھا۔ دونوں (الیکشن کمشنرز) نے جمعہ کو چارج سنبھال لیا ہے ۔
اپوزیشن لیڈر، جو تقرری پینل کا حصہ تھے ، نے ان دونوں سے اختلاف کا اظہار کیا تھا۔
غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور کانگریس کی لیڈر جیا ٹھاکر نے الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں جس میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور دفتر کی مدت) ایکٹ ۲۰۲۳کے سیکشن۷کے نفاذ پر روک لگانے کی ہدایت جاری کرنے کا عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اس ایکٹ میں چیف جسٹس کی کوئی جگہ نہیں۔
رٹ درخواستوں میں نئے ترمیم شدہ قانون کی بجائے’انوپ بارنوال‘کیس میں آئینی بنچ کی ہدایات کے مطابق الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے’’اب ایگزیکٹو کے پاس دو الیکشن کمشنرز کی تقرری کرنے کا اختیار ہے ، جس سے اسے غیر مناسب فائدہ ہو سکتا ہے ۔آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے ۔ اس لیے تقرری بھی منصفانہ ہونی چاہیے ‘‘۔
کانگریس کی جیا ٹھاکر کی طرف سے دائر پٹیشن میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر مرکزی حکومت کو نئے قانون کی دفعات کے مطابق الیکشن کمشنروں کی تقرری نہ کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ مزید یہ کہ یہ انوپ بارانوال بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں کے خلاف ہے ۔
عدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ نے۲مارچ۲۰۲۳کو کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کا تقرر صدر جمہوریہ ایک پینل کے مشورے پر کریں گی ۔ اس پینل میں وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس آف انڈیا شامل ہوں گے ۔
دریں اثنا، گزشتہ سال دسمبر میں پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ نئے قانون میں مرکزی وزیر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جگہ ایک مرزی وزیر کو شامل کرکے پینل مقرر کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔
الیکشن کمشنر ارون گوئل نے۹مارچ۲۰۲۴کو استعفیٰ دے دیا تھا اور اس سے پہلے فروری میں ایک اور الیکشن کمشنر کا میعاد کار ختم ہوگیا تھا ۔ مرکزی حکومت۱۵مارچ تک دو کمشنروں کی تقرری کر سکتی ہے ۔