نئی دہلی//
ہندوستان نے پیر کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو جموں و کشمیر میں حد بندی مشق پر اس کے ’غیر ضروری‘ تبصروں کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا اور اس گروپ سے کہا کہ وہ اپنے ’فرقہ وارانہ ایجنڈے‘ پر عمل کرنے سے باز رہے۔
جموں و کشمیر میں حد بندی مشق پر او آئی سی کی جانب سے نئی دہلی پر تنقید کے بعد بھارت کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ‘ارندم باگچی نے کہا ’’ہم اس بات پر مایوس ہیں کہ او آئی سی سیکرٹریٹ نے ایک بار پھر ہندوستان کے اندرونی معاملات پر غیر ضروری تبصرہ کیا ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا’’ماضی کی طرح، حکومت ہند جموں و کشمیر ‘جو کہ ہندوستان کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ ہے‘ پر او آئی سی کے سیکرٹریٹ کے دعووں کو واضح طور پر مسترد کرتی ہے ‘‘۔
باگچی جموں کشمیر میں حد بندی مشق پر او آئی سی کے بیان پر میڈیا کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا’’او آئی سی کو ایک ملک کے کہنے پر ہندوستان کے خلاف اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے‘‘۔
اس سے پہلے او آئی سی نے اپنے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈل پر شیئر کیے گئے ٹویٹس کی ایک سیریز میں کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے’انتخابی حدود کو دوبارہ کھینچنے کی بھارت کی کوششوں‘ پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، جس سے علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے اور کشمیری عوام کے حقوق کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔
او آئی سی نے کہا کہ’حد بندی مشق‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قانون کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ اس نے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی زور دیا کہ وہ’اس طرح کی حد بندی‘ مشقوں کے ’سنگین مضمرات‘ کا فوری نوٹس لے۔
حد بندی کمیشن‘ جسے جموں کشمیر میں پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام سونپا گیا تھا‘ نے اس ماہ کے شروع میں اپنی حتمی رپورٹ کو جاری کیا۔
حد بندی کی مشق کی تکمیل سے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوگی۔ سابق ریاست جون۲۰۱۸ سے منتخب حکومت کے بغیر ہے۔
۹۰؍اسمبلی حلقوں میں سے ۴۳جموں کے علاقے اور۴۷ کشمیر کیلئے ہوں گے۔ جموں و کشمیر کو حد بندی کے مقاصد کے لیے ایک واحد اکائی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ جموں میں اسمبلی کی کل سیٹوں کی تعداد ۳۷ سے بڑھ کر ۴۳ ہو گئی ہے۔