کیا سیاستدانوں کی باتوں کو کبھی سنجیدہ لیا جانا چاہئے… اجی وہ احمق ہے اور بے وقوف بھی جو سیاستدانوں اور ان کی باتوں کو سنجیدہ لینے کی سوچتا بھی ہے وہ بھی تب جب الیکشن سر پر ہوں… اس وقت سیاستدان کچھ بھی کہہ سکتے ہیں… کچھ بھی اور اللہ میاں کی قسم وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ سب کچھ ہو تا ہے… وہ سب کچھ ہو سکتا ہے‘ سوائے سچ کے…یقینا سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں … کہ اگر سیاستدان سچ بولنے لگیں تو وہ سیاست میں نہیں رہ سکتے ہیں اور بالکل بھی نہیں رہ سکتے ہیں… لیکن جب الیکشن کا موسم ہو تو…تو سیاستدان سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنا ان کا پیدائشی حق ہے… الیکشن کے موسم میں سیاسدان کسی اصول ‘ کسی نظریے کا پاس لحاظ رکھتے ہیں اور نہ اس کا احترام کرتے ہیں… اپنے مودی جی کی ہی بات لیجئے…مودی جی دن رات اور رات دن موروثی سیاست اور خاندانی راج کیخلاف بولتے رہتے ہیں… اپنے بھاشن کی شروعا ت بھی اسی ایک بات سے کرتے ہیں اور اختتام بھی… اور اس لئے کرتے ہیں کیونکہ مودی جی کاجاننا اور ماننا ہے کہ کانگریس میں خاندانی راج ہے… مودی جی کی یہ باتیں سن کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ بی جے پی میں خاندانی راج اور موروثی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور… اور بالکل بھی نہیں ہو گی… لیکن کیا یہ سچ ہے… کیا اس میں کوئی حقیت ہے… ؟پچھلے ہفتے اس بات کے خوب چرچے تھے کہ کمل ناتھ اور ان کا بیٹا بی جے پی میں شمولیت کرنے والے ہیں… کمل ناتھ اپنے بیٹے کے ہمراہ دہلی بھی پہنچ گئے … لیکن … لیکن ایسا نہیں ہوا… کیوں نہیں ہوا‘ ہم نہیں جانتے ہیں… لیکن اگر ہم کچھ جانتے ہیں تو … تو اتنا جانتے ہیں کہ… کہ اگر کمل ناتھ بی جے پی میں شامل ہوتے تو کیا بی جے پی انہیں لینے سے انکار کرتی… کیا مودی جی ان کا استقبال نہیں کرتے… اور اس لئے نہیں کرتے کہ …کہ کمل ناتھ بھی موروثی اور خاندانی راج کی ایک مثال ہیں… جواب ہم بھی جانتے ہیں اور… اور آپ بھی کہ… کہ بی ج پی اور مودی جی بھی کمل ناتھ اور ان کے بیٹے کا خیرمقدم کرتے اور… اور اس لئے کرتے کہ… کہ سیاستدان جو کہتے ہیں… وہ کہنے کی حد تک ہی سچ ہوتا ہے… اور جب الیکشن سر پر ہوں تو… تو پھر جس طرح سات قتل معاف ہو تے ہیں اسی طرح سیاستدانوں کے سات کیا سات سو جھوٹ بھی معاف ہو تے ہیں۔ ہے نا؟