پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کشمیر کی طرف سے آئے روز جاری احکامات اور اُٹھائے جارہے اقدامات انداز بیان، لہجہ، اپروچ اور عمل آوری کے حوالہ سے نہ صرف تحکمانہ محسوس ہورہے ہیں بلکہ کسی کسی وقت پر شدت سے یہ احساس بھی دامن گیر ہوجاتا ہے کہ جیسے یہ نسلی اور علاقائی تعصبیت سے بھی عبارت ہیں۔
تازہ ترین حکم نامہ میں ایک ڈویژن کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ۲۴؍ سو بجلی صارفین کی ترسیلی لائنیں کاٹ دی جائیگی جبکہ سردی کے ان یخ بستہ اور ٹھٹھرتے ایام کے دوران کریک ڈائون کا راستہ اختیار کرکے کچھ اس طرح کا سا تاثر بیروں کشمیر رائے عامہ کی صفوں میں اُبھرتا رہا کہ یہ کریک ڈائون بجلی صارفین کی آڑ میں دہشت گردوں کے حامیوں اور ان سے وابستہ ایکو سسٹم کے خلاف کیاجارہا ہے ۔ صارفین کے گھروں کے اندر گھس کر چھاپہ ماری کرکے جدید الیکٹرانک آلات ضبط کرکے انہیں تلف کردیاگیا۔
بے شک کچھ قوانین ہیں، کچھ ضوابط ہیں اور کچھ لوازمات ہیں جن کی تابعداری اور احترام سروسز (خدمات) سے مستفید ہونے والے (بجلی صارفین ) کیلئے بے حد لازمی ہے لیکن اس تعلق سے جواپروچ اور راستے اختیار کئے جارہے ہیں وہ غیر شائستہ ، آمریت سے عبارت اور ناروا ہیں۔ آپ بجلی کا استعمال کریں تو فیس کی صورت میں ادائیگی آپ کیلئے لازم بھی ہیں اور فرض بھی ہے۔ خاص کر اس صورت میں کہ جب بجلی کی اپنی (ریاستی) پیداوار اب روزبروز گھٹتی جارہی ہو اور خریداری کیلئے بیرون ہاتھ دامن دست دراز کرنا پڑرہاہو۔
پی ڈی ڈی کشمیرکے نظم ونسق پر معمور آفیسران کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں، ان کا تعلق اسی زمین اور اسی معاشرے سے ہے، انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ بجلی کی پیداوار، اس کا استعمال، فیس کی ادائیگی کے تعلق سے معاملات اور دوسرے اہم کارن کیا ہیں، لیکن ان امورات پر آنکھیں بند کرکے وہ جس انداز اور طرز کا راستہ اختیار کرکے بظاہر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ فرائض انجام دے رہے ہیں اس حوالہ سے ان کا اپروچ شتر مرغ سے بھی ابتر ہے ۔ یہی وہ افسوسناک امر ہے جس کا سامنا کشمیر میں بجلی صارفین کو ہے۔
کشمیر ایک وسیع اور عریض کا مجمعہ ہے، یہ شہر سرینگر اور اس کے کچھ ایک مضافات جہاں حالیہ برسوں میں کچھ پوش کالونیاں معرض وجود میں آتی رہی ہیں کا نہ نام ہے نہ ان تک محدود ہے لیکن محکمہ بجلی کشمیرکی تمام تر ترجیح کا محور اور مرکز یہی چند پوش کالونیاں تو اتر کے ساتھ رہی ہیں۔ پہلے سویلین حکومت کے دوران ڈیجیٹل میٹر نصب کئے گئے، اگلے ہی چند سالوں کے دوران ان نصف شدہ میٹروں کو غیر فعال یا ناکارہ قرار دے کر ایک نیا اور جدید طرز ساخت کے میٹر نصب کئے جاتے رہے ، یہ بھی ناکام قرار دیئے گئے اور اب سمارٹ میٹروں کی بہار ہے۔ میٹروں کی یہ تنصیبات عوامی حلقوں میںاُبھرتے رہے عمومی تاثرات کے حوالہ سے یہ ملٹی کروڑ سکینڈل کا معاملہ ہے۔
میٹروں کی تنصیب کے تعلق سے یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پوش کالونیوں کوہی کیوں مخصوص طور سے بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا؟ اس مدت کے دوران نہ صرف ۹۰ فیصد شہری اور تقریباً۹۵؍ فیصد دیہی آبادی کو میٹروں کی تنصیبات کے دائرے میںنہیں لایاگیا کیوں؟ اگر یکسانیت کے ساتھ بلکہ ایک منظم طریقہ کار کے تحت ہر محکمہ اور ہر بلاک میںمیٹر نصب کئے گئے ہوتے تو آج محکمہ کو اپنی نالائقی اور حماقتوں کو چھپانے کیلئے ڈنڈوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا اور نہ بجلی صارفین کو یہ دھمکی دینے کی ضرورت پڑتی کہ ان کے خلاف کرمنل کیس رجسٹر کئے جائیںگے۔
اس ساری صورتحال کا کیا محکمہ پی ڈی ڈی خود ذمہ دار نہیں؟اگر کسی علاقہ یا بستی میں ہکنگ ہورہی ہے تو کیا اُس کا ذمہ دار خودمحکمہ کے ہاتھ نہیں؟ اس تعلق سے کئی اور بھی سوالات ہیں جن سے گریز کررہے ہیں۔ بہرحال اعلیٰ سطح پر محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل فائنانس نے بجلی فیس کے بقایاجات کی ادائیگی کیلئے مروجہ ایمنسٹی سکیم کی ایک سال کیلئے توسیع کردی ہے۔ اس سکیم کا نفاذ اب ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۵ء تک ہے اور اس کا اطلاق تمام بجلی (بقایا دار) صارفین کیلئے ہے۔ اس توسیعی سکیم کی رئو سے ان تمام صارفین کی ترسیلی لائن کاٹ دی جائیگی جو بقایا رقم ادانہیں کریں گے۔ کشمیر اور جموں دونوں ڈویژنوں کے منتظمین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ترسیلی نقصانات پر قابو پانے کے اقدامات کوبھی یقینی بنائیں۔
اس حوالہ سے یہ امر قابل ذکرہے کہ کشمیرمیں ترسیلی نقصانات ۶۰؍فیصد جبکہ جموںمیں ۴۰؍فیصد ہے جو قومی شرح کے ترسیلی نقصانات کے موازنہ میں بہت زیادہ ہے۔ ان اقدامات سے قطع نظر کشمیر کا محکمہ بجلی کشمیر کے بجلی صارفین کو اب کی بار حد سے زیادہ باعث تکلیف اور ازیت رسانی کا کردار اداکرنے کا بھی مرتکب سمجھا جارہا ہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی تو معمول ہے البتہ خود اس کا مرتب کردہ کٹوتی شیڈول اس کے اپنے ہاتھوں عمل آوری کے تعلق سے شرمندہ ہے چاہئے معاملہ میٹر والے علاقوں میں بڑے طمطراق کے ساتھ ایک گھنٹہ تو کیا ایک منٹ تک کیلئے بھی بجلی غائب نہیں ہوگی کے اعلیٰ سطح پر کئے جاتے رہے اعلانات کے حشر سے ہے یا غیر میٹر والے علاقوں میں بجلی کی عدم ترسیل سے ہے۔ ابھی آئی نہیں کہ جاتی نظرآرہی ہے۔
کشمیر کے طول وارض میںیہ احساس شدت سے اُبھررہا ہے کہ کشمیرکے ساتھ بجلی کی سپلائی کے معاملے پر سنگین نوعیت کا امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے جس امتیازی سلوک میںاب کی بار شدت ہی دیکھی گئی لیکن جموں جہاں ۴۰؍ فیصد ترسیلی نقصانات کا سامنا ہے اور جہاں اکثر علاقوں میں ابھی بجلی میٹر بھی نصب نہیں ہیں کے صارفین کے ساتھ کشمیر ی صارفین ایسے سلوک کا سامناہے ، جواب نفی میں ہے۔