سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے جمعہ کو کہا کہ توازن پر پہنچنا اور اسے برقرار رکھنا ہندوستان اور چین کے تعلقات کیلئے ’سب سے بڑا چیلنج‘ ہونے جا رہا ہے، حالانکہ انہوں نے زور دے کر کہا کہ فوری مسئلہ بیجنگ کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف ہے جس کی وجہ سے مشرقی لداخ میں سرحدی تنازعہ پیدا ہوا ہے۔
رائے سینا ڈائیلاگ کے ایک انٹرایکٹو سیشن میں وزیر خارجہ نے دوطرفہ فریم ورک کے تحت معاملات کو محدود کرنے کے لئے چین کے’مائنڈ گیم‘ کے خلاف متنبہ کیا اور کہا کہ ہندوستان کو توازن پر بہتر شرائط حاصل کرنے کیلئے دنیا کے دیگر عوامل کو بروئے کار لانے کے اپنے حقوق کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اقتصادی محاذ پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب چینی معیشت سست روی کا شکار ہوگی اور ہندوستان ترقی کرے گا ۔انہوں نے گولڈ مین ساکس کے اندازوں کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ۲۰۷۵ تک دونوں ممالک ۵۰ ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی معیشت بن سکتے ہیں۔
جئے شنکر نے کہا کہ ہندوستان کو ’بہترین ممکنہ نتائج‘ پیدا کرنے کیلئے بین الاقوامی نظام سے’فائدہ اٹھانے‘ کیلئے کافی اعتماد ہونا چاہئے۔
ان کا یہ تبصرہ اُس وقت سامنے آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین اور بھارت کے درمیان کوئی تصفیہ ہو جائے گا اور کیا دونوں ممالک بالآخر اپنے سرد مہری والے تعلقات میں توازن یا توازن تلاش کریں گے۔
وزیر خارجہ کاکہنا تھا’’یہاں فوری مسئلہ ہے کہ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر سے، ہم نے سرحد کے بارے میں ایک تفہیم حاصل کی کیونکہ یہ ہم دونوں کیلئے موزوں تھا۔ اب تقریبا ً۳۰سال کے بعد ان کی رخصتی ہوئی تھی۔ سرحد پر ان کے برتاؤ کے لحاظ سے ان کی طرف سے روانگی۔ اور ہماری طرف سے ایک دھکا تھا‘‘۔
ان کا کہنا تھا ’’میرے خیال میں توازن قائم کرنا، پھر انہیں برقرار رکھنا اور انہیں تازہ کرنا دونوں ممالک کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہوگا۔ یہ آسان نہیں ہوگا‘‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ’مائنڈ گیم‘ کھیلا جائے گا جو یہ ہوگا کہ یہ’صرف ہم دونوں کے درمیان ہے‘۔انہوں نے کہا کہ دیگر۱۹۰ ممالک ہمارے تعلقات میں موجود نہیں ہیں۔ یہ دماغی کھیل ہوگا جو کھیلا جائے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں یہ کھیلنا چاہیے۔
جئے شنکر نے کہا کہ اگر دنیا میں ایسے دیگر عوامل موجود ہیں جن سے میں توازن پر بہتر شرائط حاصل کر سکتا ہوں تو پھر میں اس حق کو کیوں چھوڑوں۔ان کاکہنا تھا’’آج جب میں کہتا ہوں کہ اپنے حل کے بارے میں سوچیں تو کسی دوسرے ملک کو، جو واضح طور پر ایک مسابقتی ملک ہے، اپنی پالیسی کے انتخاب پر ویٹو نہ دیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں وقتا فوقتا ایسا ہوتا رہا ہے‘‘۔
دونوں معیشتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ چین نے ہندوستان کے مقابلے میں ’’پہلے اور کہیں زیادہ شدت اور مضبوطی سے‘‘ شروعات کی تھی۔’’لیکن یہ چیزوں کی نوعیت میں ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر ہر کوئی چپٹا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایک ایسا دور آئے گا جب وہ ختم ہو جائیں گے اور ہم ترقی کریں گے‘‘۔
وزیر خارجہ نے کہا ’’آج کے اعداد و شمار سے میں انکار نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن اگر کوئی گولڈ مین ساکس کی پیشگوئیوں کی مثال دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ ہم دونوں۲۰۷۵کے آس پاس ۵۰ ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی معیشت بن جائیں گے اور ایک دوسرے کے قریب ترین دو ممالک ہوں گے‘‘۔
جئے شنکر نے کہا کہ اس مسئلے کا بین الاقوامی ورڑن یہ ہوگا کہ اگر ہم دونوں ایک دوسرے اور دنیا کے مقابلے میں آگے بڑھ رہے ہیں تو ہم توازن کیسے قائم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع آئیں گے جب ایک یا دوسرا کسی خاص فائدے کو دبانے کیلئے کچھ کرنا چاہے گا اور دوسرا اس کی مخالفت کرے گا۔