ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک کا سیاسی منظرنامہ اور سیاسی حلیہ بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔ روایتی پارٹیوں کا اثر رسوخ بتدریج کم ہوتا جارہا ہے، اس تعلق سے سب سے بڑاثر گرینڈ اولڈ پارٹی کانگریس جس نے انگریزوں کے خلاف ملک کی آزادی کی جدوجہد میںقیادت کرکے تاریخ میںاپنے لئے ایک منفرد مقام اور تشخص حاصل کرلیا تھا پر پڑرہا ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی نے کچھ مدت پہلے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا اور اپنے اس نعرہ کو عملی شکل دینے کیلئے ایک سیاسی وژن بھی پیش کیا۔ وزیراعظم کا یہ نعرہ اب عملی روپ اختیار کرتا جارہاہے۔ حالیہ ایام میں مختلف ریاستوں سے وابستہ کئی قدآور کانگریس لیڈر گرینڈ اولڈ پارٹی کو چھوڑ کر حکمران جماعت بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں جبکہ مزید کئی قدآور کانگریسی لیڈر بی جے پی میں شمولیت کیلئے پرتول رہے ہیں ، پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
مدھیہ پردیش کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے ایک قدآور راہنما کمل ناتھ جو کبھی کسی زمانے میں خود کو اندرا گاندھی کا تیسرا بیٹا کے طور پیش کرتے تھے اپنے ممبر پارلیمنٹ بیٹے کے ساتھ بی جے پی میں شمولیت کے پر تول رہے ہیں۔ اگر چہ وہ خود ابھی اس تبدیلی کی تصدیق یا تردید نہیں کررہے ہیں لیکن ان کے کچھ قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ پارٹی قیادت نے انہیں بے عزت کیا ہے، مدھیہ پردیش میںپارٹی کی صدارت سے محروم کیا ہے لہٰذا وہ خود کو بے عزت تصور کرکے پارٹی چھوڑے کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ البتہ ان کے کچھ پارٹی ساتھی انہیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں اور رابطہ میں ہیں۔
پنجاب سے ایک اور قدآور کانگریسی لیڈر منیش تیواری بھی بی جے پی کے ساتھ اس شرط پر شمولیت اختیار کرنے کی پیشکش کررہے ہیں کہ انہیں پنجاب میں اپنے پارلیمانی حلقے سے منڈیٹ دیا جائے۔پنجاب سے ملحقہ ہماچل پردیش اور ہریانہ میںکانگریس پارٹی کے اندر تکونی دھڑہ بندیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ یہ کچھ ایسی ریاستیں ہیں جن سے کانگریس کو آنے والے پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے بہت ساری توقعات وابستہ تھی لیکن اندرونی دھڑہ بندی اور قد آور لیڈروں کا ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑنے کی مسلسل اطلاعات پارٹی کیلئے کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔
کانگریس کو یہ دھچکے پے درپے کیوں لگ رہے ہیں، کیا اس کے پیچھے بی جے پی قیادت کی حکمت عملیاں اور کوئی سیاسی انجینئرنگ کارفرما ہے یا پارٹی چھوڑ کرجانے والوں کے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں،ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ دونوں کارن ہیں کیونکہ اب سیاسی منظرنامہ میں کسی اصول، کسی آدرش یا کسی آئیڈیالوجی کو زیاد ہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ بلکہ سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے سیاستدان اب اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ سارا منظرنامہ اب اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے جو پارٹی اپوزیشن اتحاد… انڈیا کی قیادت کی دعویدار بن کرسامنے آرہی تھی اور اپنی اس دعویداری کو چھوڑنے یا اس کے حوالہ سے کسی اور کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کے حال اور مستقبل کے آگے سوالیہ لگ چکا ہے۔ پارٹی کی اپنی اندرونی دھڑہ بندی اس کے اندرونی انتشار کو عیاں کررہی ہے۔ باالخصوص جب ریاستوں کے پارٹی کے قدآور لیڈران ہی ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑ رہے ہوں تو دوسرے عہدیدار، کارکن اور پارٹی کیڈر کا کمزورپڑ جانا فطرتی بن جاتا ہے۔ وہ زمین پر اب کسی بھی طرح کا کوئی ذمہ دارانہ اور عہد بند کردارادا کرنے سے بھی ہاتھ پیچھے کھینچ لیں گے۔ یہی پارٹی کیلئے آنیو الے دنوں ، ہفتوں میںبہت بڑا دھچکہ ثابت ہوسکتا ہے۔
پارٹی سے پہلے ہی گروپ ۲۳؍ سے وابستہ لیڈران یاتو جاچکے ہیں یا پارٹی کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ یہ صورتحال اپنی آنکھوں کے سامنے اُبھرتے دیکھنے کے باوجود پارٹی ہائی کمان نے کوئی حرکت نہیں کی اور نہ کسی عجلت یا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنی خو تبدیل نہ کرتے ہوئے سرپھرانہ انداز فکر اور اپروچ پر ہی گامزن رہی۔ نتیجہ یہ کہ گذرے تقریباً ۲؍سالوں کے دوران پارٹی تنزلی کے راستے پر گامزن ہوتی گئی۔
جموںوکشمیر کے تعلق سے بھی کانگریس کا حال احوال کچھ ٹھیک نہیں۔ نہ صرف کشمیر بلکہ جموں سے بھی کچھ سرکردہ کانگریسی لیڈر پارٹی چھوڑ کر اگلے چند دنوں میںحکمران جماعت بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کون پارٹی چھوڑ کر جارہا ہے اور کون نہیں اس بارے میںقیاس آرائیاں جار ی ہیں البتہ کچھ واقف کاروں کا دعویٰ ہے کہ رابطہ قائم ہوچکا ہے اور معاملات طے کئے جارہے ہیں۔
اس حوالہ سے جو اشارے سامنے آرہے ہیں وہ اگر کسی سمت درست سمجھیں جائیں تو بی جے پی کی جموں کے حوالہ سے کوششیں یہی نظرآرہی ہے کہ جموں کی پارلیمانی نشستوں پر گرفت اور مضبوط کرلی جائے۔ اس ہدف کوحاصل کرنے کیلئے سابق بی جے پی لیڈر چودھری لال سنگھ جن کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ وہ جموں کے دو مخصوص اضلاع میں اپنا سیاسی اثر ورسوخ رکھتے ہیں کوواپس پارٹی میں لانے کیلئے کوششیں کچھ عرصہ سے جار ی ہیں اور اگر یہ کوششیں کامیاب ہوئی تو ممکن ہے کہ چودھری کو جموں کی ایک پارلیمانی نشست کیلئے بطور اُمیدوار منڈیٹ دیاجائے۔
اب جو منظرنامہ بحیثیت مجموعی اُبھرتا محسوس ہورہا ہے اس کے ہوتے بی جے پی کی اقتدار پر تیسری بار واپسی کی راہیں ہموار ہورہی ہیں اور جس ہدف کا بار بار تذکرہ کیاجارہاہے وہ بھی پارٹی کی پہنچ سے زیادہ دور اب دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ کیجولٹی انڈیا اتحادسے وابستہ پارٹیاں ہی ہوسکتی ہیں جنہوںنے بڑے طمطراق کے ساتھ آپسی اتحاد کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن خود اتحاد میںشامل کچھ اکائیوں نے اپنے اپنے سیاسی اور پارٹی مفادات کو ترجیح میں رکھ کر شگافیں ڈالنے کا راستہ اختیار کیا۔ اس سلسلے میں نتیش کمار ، ممتابینرجی ، کیجریوال، جموںوکشمیر کے تعلق سے فاروق عبداللہ اور اب پی ڈی پی بھی اپنی اپنی راہیں اتحاد سے جد ا کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔