سرینگر//(ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک وکیل کو متنبہ کیا جس نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ اگست ۲۰۱۹ میں آئین کے آرٹیکل۳۷۰ ؍اور۳۵؍اے کو منسوخ کرنے کے بعد کشمیر ملک کا حصہ بن گیا تھا ۔
’’نہیں، نہیں، یہ طویل عرصے سے ملک کا حصہ رہا ہے۔ یہ کچھ خاص دفعات ہیں۔ محتاط رہیں کہ آپ کونسی زبان استعمال کرتے ہیں‘‘۔ جسٹس ایس کے کول‘ دو ججوں کی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے، روی شنکر جندھیالا سے کہا۔
سپریم کورٹ حد بندی کی مشق کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست کی سماعت کررہا تھا‘جس میں جموں و کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی تعداد ۸۳ سے بڑھا کر ۹۰ کرنے کی سفارش کی گئی تھی‘۔
بنچ، جس میں جسٹس ایم ایم سندریش بھی شامل تھے، نے درخواست گزاروں ‘ سرینگر کے رہائشی حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سے کہا کہ درخواست گڑبڑ دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس میں خصوصی دفعات کی منسوخی سے لے کر متعدد مسائل کو چھو لیا گیا تھا۔ حد بندی کی مشق اور یہ کہ عدالت کو یہ سمجھنا مشکل ہوا کہ مدعا دراصل کیا ہے۔
جندھیالا نے کہا کہ تنسیخ کے معاملے پر، موقف یہ ہے کہ ’چونکہ یہ منسوخ ہے، اس لیے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو کشمیر اس ملک کا حصہ بن گیا ہے‘‘…۔ اس سے پہلے کہ وہ مکمل کر پاتے، جسٹس کول نے مداخلت کی اور انہیں یاد دلایا کہ ایسا نہیں ہے۔ وکیل نے جلدی سے خود کو درست کیا اور کہا’’۳۷۰ کو منسوخ کر دیا گیا، اس کے بعد جموں و کشمیر پر آئین کی تمام دفعات کا اطلاق ہو گیا‘‘۔
جیسے ہی عدالت نے سماعت کی اگلی تاریخ ۳۰؍ اگست مقرر کی، سینئر وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جا سکتی ہے جس کے بعد یہ سول کورٹ کے حکم نامے کے مترادف ہو جائے گی۔پھر یہ ایک مشکل ہو گی‘‘۔لیکن بنچ نے پوچھا’’ہم انہیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روک سکتے ہیں؟‘‘
جسٹس کول نے وکیل سے پوچھا کہ جب حد بندی کمیشن پہلی بار تشکیل دیا گیا تھا تو درخواست گزار نے اسے چیلنج کیوں نہیں کیا تھا۔ ’’اگر آپ اتنے پریشان ہیں تو آپ۲۰۲۰ کے پہلے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے کے لیے دو سال کیوں سوئے؟‘‘
جندھیالا نے استدلال کیا کہ حد بندی کی مشق’آئین کی اسکیم کے خلاف ہے… ان (آئینی) دفعات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی حلقہ بندیوں کی حد جو کہ ابھی بیان کی گئی ہے‘سال ۲۰۲۶ کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری تک منجمد رہے گی۔ ان دفعات کی وجہ سے موجودہ علاقوں میں حدود کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ پٹیشن ۶مارچ۲۰۲۰ کی حد بندی کے نوٹیفکیشن اور اس کے بعد کے دو نوٹیفکیشن کو چیلنج کرتی ہے ۔
عرضی گزار کی عرضیوں کا جواب دیتے ہوئے، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا’’آئین کے تحت دو طرح کی حد بندی فراہم کی گئی ہے، عوامی نمائندگی ایکٹ، ۱۹۵۱ وغیرہ۔ ایک حد بندی کمیشن کے ذریعہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ وغیرہ کی وجہ سے جغرافیائی حد بندی ہے۔ اس کے بعد، حلقہ بندی کا دوسرا تصور ہے جو الیکشن کمیشن نے شروع کیا ہے، فراہم کی جانے والی سیٹوں کیلئے ریزرویشن کے لحاظ سے حد بندی…کس کیلئے کتنا مخصوص ہے؟‘‘
مہتا نے کہا کہ عرضی گزار کا معاملہ یہ ہے کہ جب دفعہ ۱۷۰ کہتی ہے کہ اگلی مردم شماری صرف ۲۰۲۶ میں ہو گی تو ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔’’یہاں جو ہوا تھا، جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کر کے‘ آئین نے ۱۹۷۵ کی مردم شماری کو منجمد کر دیا ہے۔‘‘