ماسکو/۱۲؍مارچ
جمعہ کے روز روسی صدر ولادی میر پوتین نے یوکرین میں اپنے ملک کی قیادت میں فوجی آپریشن پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے روسی قومی سلامتی کونسل کے ساتھ میٹنگ کی۔ جب کہ روسی وزارت دفاع نے اطلاع دی کہ یوکرین کی فوج کے مین پورٹیبل ایئر ڈیفنس سسٹمز کی ایک بڑی تعداد پر قبضہ کر لیا گیا اور بنیادی ڈھانچے کے 3,346 مقامات کو تباہ کر دیا گیا۔
ملاقات کے دوران پوتین نے تصدیق کی کہ لڑنے کے خواہشمند رضاکاروں کو یوکرین جانے کی اجازت دی جائے گی۔ ایسے وقت میں جب روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے تصدیق کی کہ مشرق وسطیٰ سے 16000 رضاکار یوکرین کے علیحدگی پسند علاقے ڈونباس میں لڑنے کے لیے تیار ہیں اور انہیں وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
روسی میڈیا کے مطابق پوتین نے جنگ کے لیے مشرق وسطیٰ سے ’رضاکار‘ جنگجوؤں کو یوکرین بھیجنے میں سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قدم جائز ہے کیونکہ مغربی یوکرینی حکومت کے گاڈ فادرز نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ وہ کھلے عام دنیا بھر سے کرائے کے فوجیوں کو جمع کرتے ہیں تاکہ انہیں یوکرین بھیجیں۔
یوکرین نے اپنی سرزمین پر روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی مسلح افواج میں شامل غیر ملکی رضاکاروں کی ایک کور تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر ایک دوسرے سیاق وسباق میں صدر پوتین نے یوکرین کے ڈونباس علاقے میں علیحدگی پسندوں کو ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے شوئیگو کی تجویز کی حمایت کا اظہار کیا۔ پوتین نے حال ہی میں پکڑے گئے میزائل سسٹم کو روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا۔
روسی وزیر دفاع نے امریکی ساختہ ٹینک شکن نظام جیسے جیولین اور اسٹنگر کو لوگانسک اور ڈونیٹسک علاقوں میں علیحدگی پسند جنگجوؤں کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ پوتین نے روسی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران کہا کہ وہ ایسے خیال کی حمایت کرتے ہیں۔
روسی وزیر دفاع نے کہا کہ ان کا ملک اپنی مغربی سرحدوں کو نئے نظاموں کے ساتھ مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسٹاف نئے اور جدید نظاموں اور دوبارہ تعیناتی کے ذریعے ہماری مغربی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لیے فوجی یونٹوں کا ایک منصوبہ تیار کرنے پر کام کر رہا ہے۔
پوتین نے شوئیگو سے کہا کہ وہ روس کی مغربی سرحدوں پر فوجی تعیناتی کی تجویز پیش کریں۔
ایک اور تناظر میں اور بیلاروسی صدر کے ساتھ بعد میں ہونے والی ملاقات کے دوران پوتین نے تصدیق کی کہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے۔ انہوں نے مغرب کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین ماضی میں طویل عرصے تک پابندیوں کا سامنا کرتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔