نئی دہلی// دنیا کے تمام کھیلوں میں کرکٹ کی اپنی اہمیت اور شہرت ہے۔کرکٹ کے تعلق سے اگر ہم دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کا جائزہ لیں تو اس کھیل میں ہندوستانی ٹیم نے بہت کم وقت میں بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ بنیادی طور پر ایک روزہ اور ٹیسٹ دو مختلف شکلوں میں ہی ابتدا سے یہ کھیل دیکھا گیا ہے۔ ہر ٹیم کا ایک اسٹار پلیئر رہا ہے جس نے اپنی ٹیم کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرایا اور اسی ٹیم کو بڑے سے بڑے بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جی ہاں "دی وال” کے نام سے ہندستانی کرکٹ ٹیم میں جانے جانے والے اور پچ پرلمبے عرصے تک جمے رہنے والے راہل ڈریوڈ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔راہول ڈریوڈ کی خاص شناخت ٹیسٹ کرکٹ سے ہے۔ ڈریوڈ نے کرکٹ کی دنیا میں کئی ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔وہ ایک ایسا کھلاڑی ہیں جو بہت لمبی اننگز کھیلنے کے ماہر تھے۔ جب بھی ٹیم انڈیا کو لمبی اننگز کی ضرورت پڑی، راہول ڈریوڈ نے اس کردار کو بخوبی نبھایا۔ راہول ڈریوڈ تکنیکی طور پر انتہائی سمجھ دار، قابل بھروسہ بلے باز ہیں اور اپنی بیٹنگ تکنیک کی وجہ سے وہ ہندوستانی ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی بھی ثابت ہوئے ہیں۔
راہول ڈریوڈ جن کا پورا نام راہول شرد ڈریوڈ ہے، 11 جنوری 1973 کو مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں ایک مراٹھی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شرد ڈریوڈ ایک جام اور اچار بنانے والی کمپنی میں کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں پیار سے "جمی” کہا جانے لگا۔
راہول ڈریوڈکی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ان کا پورا خاندان بنگلور منتقل ہو گیا ۔راہول نے یہیں سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ کم عمری میں ہی اپنی صلاحیتوں اور دلچسپی کو بھانپتے ہوئے انہوں نے کرکٹ میں اپنا مقصد تلاش کرنا شروع کیا۔
راہول ڈریوڈ نے 12 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کی، اور انڈر 15، انڈر 17 اور انڈر 19 کی سطح پر اپنی ریاست کی نمائندگی کی۔ ڈریوڈ کی صلاحیتوں کو سابق کرکٹر کے کے تارا پور نے دیکھا جو چنا سوامی اسٹیڈیم میں منعقدہ سمر ٹیسٹنگ کیمپ میں ان کی کوچنگ کر رہے تھے۔راہول نے بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کے دوران اپنے اسکول کی ٹیم کے لیے سنچری بنائی، حالانکہ بعد میں انھوں نے ٹیسٹ کھلاڑی گنڈپا کے مشورے پر وکٹ کیپنگ روک دی۔
راہول ڈریوڈ کی زندگی میں ایک بہت اہم موڑ سال 1996 میں آیا۔ جب انہیں پہلی بار ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ یہ میچ 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد سری لنکا کے خلاف سنگاپور میں کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں انہیں ونود کامبلے کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن اپنے پہلے عالمی میچ میں راہول صرف تین رنوں پر ہی متھیا مرلی دھرن کی گیند پر آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے۔ اسی طرح انہیں اپنے دوسرے ون ڈے میچ میں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ پاکستان کے خلاف صرف 4 رنز بنانے کے بعد رن آؤٹ ہو گئے۔ راہول کی ون ڈے میچ کی شروعات ضرور سست تھی لیکن انہیں اپنے کھیل پر پورا بھروسہ تھا۔ اسی سال ان کی مسلسل پانچ سال کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں انگلینڈ ٹیسٹ کے لیے مقرر کیا گیا۔
ڈریوڈ کو سیریز کے دوسرے میچ میں سنجے منجریکر کی جگہ کھیلنے کا موقع ملا۔ سنجےکو ٹخنے میں چوٹ لگ گئی تھی ۔ اسی لئے کوچ سندیپ پاٹل نے ڈریوڈ کو مطلع کیا کہ وہ اسی دن اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کریں گے۔ جس کے نتیجے میں سنجے کی جگہ راہول کو ٹیم میں لیا گیا۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف لارڈز میں کھیلا۔ اپنے پہلے ٹیسٹ میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 95 رنز بنائے جس کی وجہ سے انہوں نے کرکٹ ماہرین اور عام کرکٹ شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ سنجے کے واپس آنے تک راہول کو ٹاپ 11 میں رہنا تھا لیکن سنجے کے آنے کے بعد بھی انہیں ٹیم میں رہنے کا موقع ملا ۔
غیر ملکی سرزمین پر ٹیسٹ میں شاندار آغاز کے بعد راہل کو گھریلو سرزمین پر بھی کھیلنا پڑا۔ انہوں نے دہلی میں آسٹریلیا کے خلاف بارڈر-گواسکر ٹرافی میں اپنا پہلا ٹیسٹ گھریلو سرزمین پر کھیلا۔ پہلی اننگز میں بیٹنگ کی چھٹی پوزیشن پرکھیلتے ہوئے انہوں نے ہندوستانی کھاتے میں 40 رنز جوڑے۔ اسی سال احمد آباد میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز کھیلتے ہوئے انہیں تیسری پوزیشن پر بیٹنگ کا موقع ملا۔ اس سیریز کے دوسرے میچ میں بھی انہیں اوپننگ بیٹنگ کا موقع ملا ۔ جنوبی افریقہ کے خلاف اس سیریز میں ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں رہی۔
ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی شناخت بنانے والے راہول کو ون ڈے کرکٹ میں اپنی شناخت بنانے کے لیےخاصی سخت محنت کرنی پڑی۔ سنگر کپ میں ناکامی کے بعد انہیں پیپسی کپ میں دوبارہ خود کو ثابت کرنے کا موقع ملا۔ اس سیریز کے پہلے دو میچوں میں صرف 14 رنز بنانے کی وجہ سے وہ باقی میچوں سے باہر ہو گئے۔