یہ اُس دور کی بات ہے جب ڈونالڈ رمسفیلڈ امریکہ کے وزیر دفاع تھے ۔ایک دن ان کی کوئی خبر ’ندائے مشرق‘ میں شائع ہوئی لیکن… لیکن ٹائپنگ کی غلطی سے ان کے نام کے ساتھ’ﷺ‘ بھی ٹائپ ہوا …صبح جب اخبار کی کاپیاں تقسیم ہوئیں تو… تو فون کی گھنٹی بجنا بھی شروع ہوگئیں…ایسی ایسی گالیاںدی گئیں جو اس سے پہلے کبھی ہم نے سنی نہیں تھیں… بالکل بھی نہیں سنی تھیں… جب فون بجنا بند نہیں ہوا توہم نے کالونی… پریس کالونی میں ایک دوست کے دفترمیں’پناہ‘ لی … آج تک ہمیں افسوس ہے… اس بات کا افسوس ہے کہ فون کرنے والوں میں سے اکثریت کا تعلق دینی مدارس یا دارالعلوم سے تھا ۔اس بات کو کم و بیش ۲۰ سال ہو گئے …اور آج اس کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ سوشل میڈیا پر کچھ حضرات آگ اگل رہے ہیں… اپنی زبان گندی کررہے ہیں… منبر پر چڑھ کر چیخ رہے ہیں‘ چلا رہے ہیں… جس منبر سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی صدائیں بلند ہونی چاہئیں اس منبر سے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے… اور اس لئے کی جا رہی ہے کسی عالم نے کچھ مقتدر ولی اللہ ؒکی شان میں کچھ ایک ایسی باتیں کی ہیں جو انہیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں… اس عالم نے اپنے اس طرز عمل پر معذرت بھی کر لی‘ معافی بھی مانگ لی ہے‘ یہ الفاظ واپس بھی لئے ہیں… لیکن ان کیخلاف اٹھنے والی آوازیں تھم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں… بالکل بھی نہیں لے رہی ہیں۔جس ردعمل کیا اظہار کیا جا رہا ہے… کیا وہ جائز ہے‘ کیا اسلام میں ایسے ردعمل کی گنجائش موجود ہے… کیا ایک مسلمان کا یہی طریقہ ہونا چاہئے… کیا نعوذ بااللہ پیغمبر آخر الزمان کا ایسا طریقہ تھا… انہیںؐ کفار مکہ نے جس طرح ستایا ‘ تنگ کیا ‘ حتیٰ کہ انہیں ہجرت پر مجبور کیا… لیکن پھر بھی آپؐ کی زبان مبارک سے ان کیخلاف ایک لفظ… جی ہاں ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا… اور ایک ہم ہیں کہ ایک غیر دانستہ غلطی پر دانستہ غلطی نہیں بلکہ غلطیاں کرتے ہیں اور… اور اپنے اس طرز عمل کو جائز قرار دیتے ہیں… یہ طرز عمل کیسے جائز ہے… کیا آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اس طرز عمل کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے… جواب ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی ۔ اس عالم نے معافی مانگ کر اپنی غلطی کا ازالہ کیا… اب باری اُن کی ہے جنہوں نے اس ایک غلطی کے ردعمل میں غلطیوں کا ہمالیہ کھڑاکیا…لیکن ان کو شرم آ رہی ہے اور نہ وہ اپنی اس غلطی پر نادم ہو رہے ہیں۔ ہے نا؟