نئی دہلی///
جموںکشمیر کے ضلع پونچھ میں تین شہریوں کی موت کے معاملے میں فوج داخلی جانچ کر رہی ہے اور قصوروار پائے جانے والوں کو یقینی طور پر سزا دی جائے گی۔
۲۲دسمبر کو پونچھ ضلع میں دہشت گردوں کے حملے کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لئے فوج کے ذریعہ پوچھ تاچھ کے لئے اٹھائے گئے ۲۷سے۴۲ سال کی عمر کے تین شہری مردہ پائے گئے تھے۔
ان ہلاکتوں پر عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جس کے بعد حکام نے ان کے اہل خانہ کے لیے معاوضے کا اعلان کیا۔
ایک سنیئر افسر نے یہاں کہا’’فوج اپنی جانچ کر رہی ہے۔ اگر کوئی قصوروار پایا جاتا ہے تو اسے ضرور سزا دی جائے گی۔ لیکن اس طرح کی تحقیقات کو عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا جانا چاہئے۔ فوج کو اپنا کام کرنے دیں۔ فوج کے بارے میں کچھ بھی پیشگی اندازہ لگانے یا کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
افسر نے کہا کہ فوج نے خود کہا تھا کہ وہ جانچ کرے گی اور اس لئے سبھی کو اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔
۲۷دسمبر کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ انہیں ہندوستانی فوج پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ جموں و کشمیر سے دہشت گردی کا صفایا کر دے گی، یہاں تک کہ انہوں نے فوجیوں پر زور دیا کہ وہ ایسی’غلطیاں‘نہ کریں جس سے ملک کے شہریوں کو تکلیف پہنچے۔
سنگھ نے کہا تھا کہ یہ فوجیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے تئیں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے لوگوں کے دل جیتیں۔
تین شہریوں کی موت اور کچھ دیگر کے زخمی ہونے کے فورا بعد ، ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے جن میں مبینہ طور پر ان کے تشدد کو دکھایا گیا تھا۔
فوج نے کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا ہے اور پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
۲۱ دسمبر کو ڈی کے جی (دھرا کی گلی) میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد فوج کے جوانوں نے بفلیاز کے ٹوپا پیر میں حملے کے بعد فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش کی۔ تلاشی کے دوران فوج کے جوانوں نے کچھ مقامی نوجوانوں کو پوچھ تاچھ کے لئے حراست میں لیا، مبینہ طور پر ایسے تین نوجوان سیفر احمد، محمد شوکت اور شبیر احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے ایک افسر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران خصوصی رپورٹ الگ سے پیش کی جائے گی۔ان کاکہنا تھا کہ اس طرح آئی پی سی کی دفعہ۳۰۲کے تحت قابل تعزیر جرم بنایا گیا ہے۔ اس اطلاع پر فوری طور پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ چونکہ فوری کیس خاص نوعیت کا ہے ۔
ایک بریگیڈیئر سطح کے افسر کا تبادلہ کیا گیا ہے اور۴۸راشٹریہ رائفلز کے تین افسروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے کیونکہ فوج نے حراست میں تشدد کے الزام کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔
فوج کا انسداد بغاوت یونٹ گزشتہ سال اکتوبر میں بھی غلط وجوہات کی بنا پر سرخیوں میں رہا تھا جب اس کے ایک میجر رینک کے افسر نے تھانا منڈی کے قریب نیلی پوسٹ کیمپ کے اندر اپنے ساتھیوں پر فائرنگ کی اور دستی بم دھماکے کیے، جس میں تین افسران سمیت پانچ اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔ (ایجنسیاں)