تحریر:ہارون رشید شاہ
تو بھیا اپنے شہر خستہ کے لوگ اپنے شہر خستہ کی کس کس شکایت پر شکایت کریں ؟کتوں کی ہول سیل میں موجودگی کی شکایت کریں گے یا پھر ہول سیل میں موجودگندو غلاظت کے ڈھیروں کی ۔اُن گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں کی جو ملک کشمیر ہول سیل میں آ رہے سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں ۔شہر خستہ کے لوگ تو یقینا چاہتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت کے ان دھیروں کا کچھ تو کیا جائے ‘ لیکن بھیا مسئلہ یہ ہے کہ کیا اپنے اس شہر خستہ میں صرف گندگی اور غلاظت کے ان ڈھیروں سے ہی گندگی مچی ہو ئی ہے ۔بھئی کوئی ہمیں یہ تو بتائے کہ اپنے اس شہر خستہ میں کیا کیااور کس کس کی صفائی کرائیں ‘ کہ یہاں صفائی کیلئے بہت کچھ پڑا ہوا ہے ۔چلئے شروعات اُسی سے کریں جو ساری گندگی کی اصل جڑ ہے …یعنی سیاست۔کیا کوئی اپنے شہر خستہ کو سیاستدانوں سے صاف کرائے گا کہ سیاستدانوں نے اپنے اس شہر خستہ میں جو گند مچائی ہے اس کے سامنے تو کوڑ کرکٹ بھی کسی خوبصورت باغ سے کم نہیں لگتا ہے ۔ایسی گندی سیاست کی جا رہی ہے کہ اپنے شہر خستہ کا ماحول ہی آلودہ ہو گیا ہے ‘ہر طرف سے بد بو آ رہی ہے ۔کیا اس کی صفائی ہو سکتی ہے ؟ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہر سرینگر تو کیا ملک کشمیر میں کہیں کوئی سیاست نہیں ہو رہی ہے ‘ سب کے سب گوشہ نشینی میں چلے گئے ہیں اور… اور اللہ میاں کی قسم یہی گوشہ نشینی ‘ یہیں خاموشی ‘ مصلحت آمیز خاموشی ہی تو گند ہے… جو اس گندی سیاست کی چغلی کھا رہی ہے اور…اور خوب کھا رہی ہے ۔کیا کوئی اس گندگی سیاست کی صفائی کرے گا ؟کیا کوئی راشی اور بد دیانت آفیسروں ‘ انجینئروں ‘ ڈاکٹروں ‘ ٹھیکہ داروں ‘ پولیس اہلکاروں ‘ ٹیکس مینوں اور تاجروںسے اس شہر کو صاف کرا سکتا ہے ؟جو غریبوں اور مستحق افراد کو لوٹنااپنا حق سمجھتے ہیں‘اسے ایک ہنر قرار دیتے ہیں ۔یہ سب اس معاشرے میں عزت دار شہری کہلاتے ہیں لیکن ان کے کار نامے ایسے کہ بے چارہ شیطان جی بھی ان کے سامنے سرنڈر کرے ۔شہر خستہ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں کو تو یقینا صاف کرنا ہے …لیکن جو اصل گندگی اس شہر خستہ میں موجود ہے اس نے تو ہمارے معاشرے کی چولیں ہی ہلاکے رکھ دی ہے ۔اس گندگی اور غلاظت کے بارے میں بھی کچھ تو سوچئے اگر آپ اسے گندگی اور غلاظت سمجھتے ہیں تو …اگر نہیں تو پھر سڑکوں سے کوڑا کر کٹ صاف کرائیے ہم مشکور رہیں گے ۔ ہے نا؟