جانتے تھے اور … اور سو فیصد جانتے تھے کہ ایک دن ایسا ہی ہو گا اوردیکھ لیجئے ایساہی ہوا ۔نہیں صاحب ہم کوئی نجومی نہیں ہیں‘ لیکن… لیکن اس بات کو سمجھنا راکٹ سائنس جیسا مشکل کام بھی نہیں ۔بات یہ ہے کہ ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور…اور جب بات حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ بگڑ جاتی ہے … اور بالکل ایسا ہی طالبان اور پاکستان کے ’برادرانہ‘ تعلقات میں ہورہا ہے ۔افغانستان میں جب اشرف غنی یا اس سے پہلے کرزئی ‘جنہیں پاکستان اپنا دشمن سمجھتا تھا ‘کی سویلین حکومتیں تھیں‘ تودونوں ممالک کی سرحدوں پر قدرے سکون تھا‘ امن تھا… سرحداتنی پر امن تھی کہ پاکستان کچھ سرحدی علاقوں میں باڑ لگانے میں بھی کامیاب ہوا … اشرف غنی نے اعتراض ضرور کیا… لیکن اس اعتراض کو ایک آدھ بیانات کی حد تک ہی محدود رکھا… آگے نہیں بڑھایا ‘بالکل بھی نہیں بڑھایا ۔ آج کے افغانستان کی صورتحال الگ ہے ‘ مختلف ہے آج وہاں کوئی سویلن حکومت نہیں ہے ‘بلکہ ایک جنگجو گروپ ‘ جس کا خالق و مالک پاکستان ہے ‘ اس کی حکومت ہے اور… اور گزشتہ سال جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو… تومٹھائیاں پاکستان میں بانٹی گئیں … اس امید کے ساتھ بانٹی گئیں کہ اب ہمسایہ ملک میں ایک ’دوستانہ‘ حکومت آگئی ہے…طالبان نے خود اپنی اتنی وکالت نہیں کی ‘ جتنی عمران خان کی حکومت نے کی‘ طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کی وکالت … لیکن… لیکن صاحب ایک دو سال میں پاکستان اور طالبان کے تعلقات کی نوعیت یکسر بدل گئی ہے… آج پاک افغان سرحد پر طالبان اپنے محسن پاکستان کے فوجیوں کو روند رہے ہیں‘ آئے دن ان پر حملے کررہے ہیں … حتیٰ کہ کابل میں پاکستان کا سفارتخانہ بھی محفوظ نہیں رہا … اس پر بھی حملہ ہوا … اور اس لئے ہوا کہ بھلے ہی پاکستان ‘ طالبان کو اپنا سمجھتے ہیں… لیکن طالبان ‘پاکستان کو اپنا نہیں سمجھتے ہیں ‘ اسے اب وہ محسن نہیں سمجھتے ہیں اور… اور اس لئے نہیں سمجھتے ہیںکہ اب ان کی بھی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے ‘ بالکل اسی طرح جس طرح ایک عام افغانی کی سمجھ میں یہ بات پہلے اور … اور بہت پہلے آگئی تھی کہ پاکستان …ان پر کئے گئے ’احسانوں‘ کی قیمت چاہتاہے‘ قیمت… بھاری قیمت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے… افغانستان کی بات بات اور ہر ایک بات میں مداخلت کی صورت میں یہ قیمت چاہتا ہے ‘جو عام افغانیوں کے علاوہ طالبان کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟