ہمیں معلوم ہے کہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو معلوم ہے کہ … کہ اسمبلی الیکشن… جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن نہیں ہونے والے ہیں… ابھی نہیں ہو نے والے ہیں‘ مستقبل قریب میں نہیں ہونے والے ہیں… اس ایک بات نے کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو فرسٹریٹ کیا ہے… بوکھلایا ہے…اور اس لئے بوکھلایا ہے کہ …کہ الیکشن نہ ہونے سے جہاں ان کی اقتدار سے دوری برقرار ہے… یہ طویل سے طویل ترین ہو رہی ہے … اس کے ساتھ ہی الیکشن کے دوران اپنے سیاسی حریفوں پر جو کیچڑ اچھالا جاتا ہے اس سے یہ محروم ہیں… گرچہ یہ اس سے محروم نہیں رہنا چاہتی ہیں… مزید محرو نہیںم رہنا چاہتی ہیں کہ پہلے ہی الیکشن … جموں کشمیر میں الیکشن ہوئے ایک زمانہ ہو گیا ہے … آٹھ نو سال توہو ہی گئے ہیں… اس لئے اس کمی ‘ اس محرومی کو دور کرنے کیلئے کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے الیکشن … اسمبلی الیکشن کا انتظار نہیں ہو پارہا ہے… انہوں نے اس انتظار کو بالائے طاق پر رکھتے ہوئے… ایک دوسرے خلاف ایسے ہی حملے شروع کئے ہیںجیسے یہ حضرات انتخابی مہم چلا رہے ہیں… اس میں فی الحال دو جماعتیں… ان جماعتوں کے دو لیڈر حضرات کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں…نیشنل کانفرنس کے عمرعبداللہ صاحب اور …اور اپنی پارٹی کے الطاف بخاری صاحب… عمر صاحب نے گرچہ اپنی توپوں کا رخ بخاری صاحب اور ان کی پارٹی کی طرف کر رکھا ہے… لیکن بخاری صاحب نے دو محاذ کھول کر واقعی میں جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے… بخاری صاحب جہاں نیشنل کانفرنس کو اچھا برا سناتے رہتے ہیں… اب انہوں نے میڈم جی… میڈم محبوبہ جی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اسے مضبوطی کے ساتھ دباتے ہوئے کہا ہے کی پی ڈی پی نے ۲۰۰۲ کے اسمبلی الیکشن جماعت اسلامی کی مدد اور اس کے ووٹ سے جیت لئے اور پھر حکومت بھی بنائی … بخاری صاحب اسی پر اکتفا نہیں کررہے ہیں بلکہ ان جناب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعد ازاں میڈم جی اور ان کی حکومت جماعت اسلامی کے کارکنوں کے پیچھے ہی ہاتھ دھو کر پڑ گئی ۔میڈم جی تو فی الحال خاموش بیٹھی ہیں… محترمہ نے فی الحال اپنے لبوں پر تالہ چڑھایا ہے… لیکن… لیکن یقین کیجئے کہ ان کی یہ خاموشی میں بھی سیاست ہے… ان کا چپ رہنا بھی ان کی سیاست کا حصہ ہے… اس کا ایک انداز ہے کہ… کہ میڈم جی خاموش رہ کر ‘ چپ رہ کر وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں جس کا عمر عبداللہ اور بخاری صاحب شور کرکے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہے نا؟