ترقی اور ترقیاتی عمل کی رفتار کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ امن ، استحکام اور بجلی کی دستیابی ہر حالت میں یقینی بنائی جائے، ان تین بُنیادی ستونوں میں سے ایک بھی ستون گر جائے، تھم جائے یا کسی وجہ سے بے قابو ہوجائے تو ترقی اور ترقیاتی عمل کو جاری رکھنا اور اس کے ثمرات کے حوالہ سے کوئی ایک بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔
کشمیرکے حوالہ سے بے شک زندگی کے ہر شعبے کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے کوششیں ہورہی ہیں ، منصوبے بنائے جارہے ہیں، انہیں عملی جامہ پہنانے کی بھی ہر کوشش کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر کشمیر کو زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے جس محتاجی کے راستے پر گذرے برسوں کے دوران ڈالدیا گیا اس سے باہر نکالنے کیلئے جو جتن کئے جارہے ہیں وہ توقعات کے مطابق زیادہ ثمر آور اس لئے ثابت نہیں ہورہے ہیں کیونکہ ترقیات کا پہیہ حرکت میں رکھنے کیلئے برقیات دستیاب نہیں۔
جموںوکشمیر کے تعلق سے یہی ایک ایسا شعبہ ہے جو آبادی کے ہر نفس کیلئے پریشان کن رہا ہے۔ لوگوں کو ۲۰؍ہزارمیگاواٹ بجلی کی دستیابی کے بعد دہایئوں سے دکھائے جارہے ہیں، سپلائی کو مستحکم بنانے کیلئے ترسیلی لائنوں کی کمی یاصلاحیت کا بھی فقدان قرار دیاجاتا رہا ہے، کبھی رسیونگ سٹیشنوں اور اُن سے جڑے معاملات کا بھی حوالہ دیاجاتارہا ہے اور جب حالیہ برسوں کے دوران ان سبھی خامیوں اور کمیوں پر قابو پانے کی نوید سنائی جاتی رہی اور یہ یقین بار بار دلایا جاتا رہا کہ اب سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے بعد ایک گھنٹہ تو کیا ایک منٹ کیلئے بھی بجلی کی سپلائی منقطع نہیں ہوگی تو لوگوں نے بحیثیت مجموعی ان یقین دہانیوں اور اعلانات کا خیر مقدم کیا لیکن شو مئے قسمت موسم سرماسر پر آن ہوا اور اس کے ساتھ بجلی کی آنکھ مچولی کا وہ سلسلہ جو موسم گرما کے ایام میںبھی جاری رہا تھا اپنے بدترین ’’آکار ‘‘ کے ساتھ کشمیر اور کشمیر کی ۸۰؍ لاکھ آبادی پر مسلط ہوگیا۔
وہ کوئی کاروباری اور تجارتی ادارہ نہیں، کوئی سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال نہیں، کوئی کا رخانہ دار نہیں، کوئی گھر، بستی اور چھت نہیں جو بجلی کی عدم ستیابی کے تعلق سے سراپا احتجاج اور شاکی نہ ہو، ہر کوئی سوال یہ کررہا ہے کہ بجلی گئی تو گئی کہاں؟ایڈمنسٹریشن باالخصوص کشمیرصوبہ کے بجلی کے وہ ذمہ دار جو سوشل میڈیا، اخبارات اور نیوز پورٹلوں پر جلوہ گر ہوکر سپلائی کے حوالہ سے بلند وبالا دعویٰ کرتے رہے ہیں کے سارے دعویٰ جھوٹ، فریب، ریا اور گمراہ کن ہی ثابت ہوئے، ان ذمہ داروں کے وہ بیانات جن میں وہ بار بار دعویٰ کرتے تھے کہ کشمیر کو ۱۲ ؍سو میگاواٹ بجلی کی ضرورت کے برعکس صرف ۱۰۵۰؍ میگاواٹ دستیاب ہیں اور باقی ماندہ خسارہ پورا کرنے کیلئے شمالی گرڈ اور دوسری اجارہ دار کمپنیوں سے ’بارٹر سسٹم‘ کے تحت بجلی حاصل کرنے کے معاہدوں پر دستخط کردئے گئے ہیں اب مجرمانہ خاموشی برت رہے ہیں۔
سردیوں کے ان ٹھٹھرتی اور یخ بستہ ایام میں جبکہ گرمی اور روشنی کیلئے بجلی کی دستیابی اور ضرورت زندگی سے بھی کہیںزیادہ ہے بجلی کے جاری سنگین نوعیت کے بحران نے اوسط شہری کی پریشانیوں اور مصیبتوں کو اور بھی شدت عطاکردی ہے ۔گرمی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اب اس صورتحال کے نتیجہ میں توانائی کے متبادل ذرائع پر دبائو بڑھ رہا ہے، دبائو پڑھنے کے ساتھ ہی اب رسوئی گیس کی قلت کا سامنا ہوگا، بالن کی قیمتیں مارکیٹ میںآسمان کی وسعتوں تک کو چھوتی نظرآئیگی، تیل خاکی پہلے سے ہی نابود ہے جبکہ بلیک مارکیٹ میں یہ اونچے داموں پر بھی دستیاب نہیں، ایڈمنسٹریشن کی طرف سے مکمل خاموشی ہے، کچھ بھی نہیں کہا جارہا ہے ۔ کچھ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بجلی کا یہ بحران پیدا کردہ ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت نے سمارٹ میٹروں کی تنصیب کی مخالفت بھی کی اور مزاحمت بھی کی۔ جبکہ یہ مخالفت او رمزاحمت جموں خطے میں بھی سامنے آئی لیکن جموں خطے میں بحیثیت مجموعی بجلی کا بحران نہیں لیکن کشمیر میں بحران انسانی ہاتھوں کی پیداوار قراردی جارہی ہے، یہ محض تاثر ہے یا مفروضہ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ زمینی سطح پر جو صورتحال ہے وہ اس نوعیت کے منفی ردعمل اور تاثرات کو ہوا دینے کیلئے کافی ہے۔
کانگریس نے بجلی کے موجودہ بحران کے تناظرمیں یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ ایڈمنسٹریشن نے نئے بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر وتنصیب کا کام بھی انہی اداروں کو تفویض کیا ہے جو فی الوقت تک جموں وکشمیر کے بجلی بحران کے بُنیادی ذمہ دار تصور کئے جارہے ہیں خاص کر وہ کمپنی جس نے دو اہم بجلی پروجیکٹ جموںوکشمیر کو واپس کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ پروجیکٹوں کی واپسی کی بات کرنے یا مطالبہ کرنے والوں کو ایک مرحلہ پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دیتے رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کاکہنا ہے کہ بحران پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے کہ اگر گیس ٹربائین کے سبھی یونٹوں کو چالو کردیاجائے، اگر چہ گیس ٹربائین چالو کرنے کیلئے لاگت میں کافی اضافہ ہوگا لیکن لوگوں کی موجودہ پریشانیوں اور مشکلات کے پیش نظر اس حد تک اضافی بوجھ سٹیٹ برداشت کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔
بہرحال جو کچھ بھی منظرنامہ ہے ، سردیوں کے ان ٹھٹھرتے ایام میں لوگوں کی راحت رسانی کیلئے ضروری ہے کہ ایڈمنسٹریشن مرکز سے رجوع کرے اور بجلی سپلائی کو ضرورت کے مطابق یقینی بنانے کیلئے امداد طلب کرے۔ یہ معاملہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا براہ راست مرکزی لیڈر شپ سے اُٹھا سکتے ہیںبلکہ ترجیحی طور پر رجوع کرنا چاہئے، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو گورنر کی مداخلت او رپہل کے بغیر حل نہیں ہوسکتا ہے۔
آنے والے کم سے کم چار مہینے اس تعلق سے پریشان کن رہینگے لیکن عدم دستیابی کے ہوتے لوگوں کو جن سنگین نوعیت کی پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ان کے نتائج پھر آنے والے اگلے مہینوں کے دوران بھی بھگتنا پڑسکتے ہیں۔ ا س کا تعلق پیداوار ، روزگار، صحت عامہ، تعلیم اور ترقیات کے حوالہ سے زندگی کے مختلف شعبوں سے بھی ہے ۔ لہٰذا ایڈمنسٹریشن کی جانب عوام کی توجہ اور نگاہیں مرتکز ہیں کہ وہ مداخلت اور پہل کرکے اس صورتحال کا جو اب بے حد تکلیف دہ بنتی جارہی ہے، حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔