دیوالی سے چند روز قبل یہ اطلاع آئی کہ فوڈ اینڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کی ایک چھاپہ مار ٹیم نے سرینگر کے کچھ علاقوں میں مٹھائی اور بیکری کی تین دکانوں پر چھاپے مار کر ڈیڑھ کوئنٹل مٹھائیاں اور بیکری ضبط کرلی ہے جبکہ دکانوں کو سربہ مہر کردیا ہے۔ یہ اقدام عام لوگوں کی حفظان صحت کے تعلق سے اُٹھایا گیا۔ اعلان میں کہاگیا کہ مذکورہ کاروباری ایف ایس ایس اے قوانین کے تحت پروڈکٹ تیار کرنے میں خلاف وزری کے مرتکب پائے گئے جبکہ ضبط شدہ اشیاء کے نمونے تجزیہ کیلئے بھیج دیئے گئے۔
حکومت کے اس ادارے کی یہ کارروائی قابل سراہنے ہے۔ ایسے اقدامات متعلقہ محکمہ کے فرائض منصبی میںشامل ہیں بلکہ اہم جز ہیں۔ محکمہ نے اس کارروائی کے حوالہ سے متعلقہ کاروبارکرنے والوں کو بھی انتباہ دیا کہ وہ قواین کا احترام کریں بصورت دیگر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائیگی۔
اس حد تک تو ٹھیک ہے ، لیکن کہانی یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ ادھوری ہے جس کا تعلق ایک تو پردہ پوشی سے ہے جبکہ دوسرا تعلق چھاپہ ماری اور ضبطی کے حوالہ سے رسم اور دکھاوے سے عبارت قرار دیاجارہاہے۔قمرواری، بمنہ اور ڈل گیٹ علاقوں کی کارروائی کے حوالہ سے نشاندہی تو کی گئی ہے لیکن ان کاروباریوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی جنہیںخلاف وزری کا مرتکب پاکر اور ان کی تحویل سے ڈیڑھ کوئنٹل اشیاء ضبط کرنے کا دعویٰ کیاگیا۔
کشمیر کے چیکنگ سکارڈ وں، چھاپہ مار ٹیموں اور دوسرے متعلقہ اداروں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ شناخت چھپاتے رہے ہیں۔ اس نوعیت کی روایت کیوں نشو ونما پاتی رہی اور کیوں عموماً پردہ پوشی سے کام لینے کا راستہ اختیار کیاجاتارہا اس کے بارے میںعوامی حلقوں میںکہانیوں اور قصوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی سزا پاکر باہر آنے کی آزادی حاصل کرتا رہا تو اپنی عادت اور مخصوص ذہنیت سے مجبور وہ پھر اُسی راستے کو اختیار کرکے عوام کی صحت اور سلامتی کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کرتا رہا۔ اس طرح یہ وبا کسی قابو میں آنے کی بجائے کاروباری اور تجارتی اداروں میں پھیلتی گئی اور حوصلہ پاکر لوگوں کو اشیاء خوردنی کے نام پر زہرکھلایا پلایا جاتارہا۔ آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ۸۰؍ فیصد کشمیر بیمار ہے ، جس بیماری کیلئے بہت سارے کاروباری اور لالچی ہاتھ براہ راست ذمہ دار ہیں۔ جنہیں المیہ کی حد تک سیاسی اور انتظامی سطح پر معاونت اور سرپرستی حاصل رہی ہے۔
اسی ایک مخصوص چھاپہ ماری کو ایک مخصوص علامت کے طور لیاجائے تو اس کے کئی پہلو بے نقاب بھی ہوتے ہیں اور تہہ در تہہ موجود اور پھیلی گند اور بُو بھی محسوس کی جارہی ہے۔ کیا دیوالی کی آمد آمد کی مناسبت سے صرف تین کاروباری اشیاء کی تیاری اور متوقع خریداریوں میں مصروف تھے؟ چھاپہ ماری اور کہاں کہاں اور کس کِس مارکیٹ میںکی گئی؛ اگر کی گئی تو کیا ان کاروباریوں کی تیار کردہ اشیاء مروجہ اور متعلقہ قواعد وضوابط کے مطابق تھی؟ قمرواری، بمنہ اور ڈل گیٹ علاقوں میں جوا شیاء ضبط کی گئی !اس کی تجزیاتی رپورٹ کیا ہے اور کیوں ابھی تک اس رپورٹ کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیاگیا جس کی جانکاری ان کا بُنیادی حق ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست اشیاء خریدنے اور استعمال کرنے والے صارفین کی صحت اور سلامتی سے ہے۔
رپورٹ کو اس کے مثبت یا منفی نتائج کے حوالہ سے صیغہ راز میں رکھنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے جبکہ یہ معاملہ کسی بھی حوالہ سے کسی کلاسفائیڈ زمرے میں نہیں آتا اور نہ ہی اس کا کسی بھی حوالہ سے تعلق سٹیٹ کی سکیورٹی اور جموںوکشمیر کی سلامتی اور وحدت سے ہے۔
غیر موثراور غیر فعال چاہئے ادویات ہوں، ملاوٹ آمیز اشیا ہوںیا دیگر خوردنی اشیاء کے نام پر مضررساں چیزیں بازاروں میںفروخت ہورہی ہوں ان پر گڑی نگاہ رکھنا ایڈمنسٹریشن سے وابستہ کئی متعلقہ اداروں کی براہ راست ذمہ داری ہے۔ مروجہ قوائد وضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا قلع قمع کرنا بھی ان اداروں کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ لیکن کشمیرمیں متعلقہ ادارے اس ضمن میں اپنے فرائض دیانتداری، لگن اور جانفشانی سے سرانجام نہیں دے رہے ہیںا سکی وجہ ایک تو بدعنوان طریقہ کار ہے ، دوسری وجہ کورپشن کی لعنت ہے تیسری وجہ خلا ف ورزی کے مرتکب افراد اور کاروباریوںکی شناخت کو چھپانے کی روایت سے ہے۔
بحیثیت مجموعی اسی سوچ اور اپروچ نے کشمیرکے معاشرے کو بیمار بنا رکھا ہے،ا وسط شہری بھی اس حوالہ سے کسی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ اپنے ہمسایہ دکاندار کے خلاف کیا شکایت کرے لیکن نجی محفلوں میں نہ صرف سراپا شاکی بنا ہوتا ہے بلکہ سینہ کوبی بھی کرتا ہے۔ یہ بیمار ذہنیت اگر نہیں البتہ فرسودہ اپروچ کے سوا کچھ نہیں۔
کشمیرمیں کاروباریوں کی اکثریت استحصالی ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ۔ حکومت نے گوشت کی قیمتیں مقرر کرنے سے ہاتھ ہٹالیا تو کوٹھداروں اور قصابوں نے یہ کہکر خیرمقدم کیاکہ اب وہ باہر کی منڈیوں سے اعلیٰ اور معیاری قسم کا گوشت خریدنے کیلئے آزاد اور بااختیار ہیں۔لیکن کئی ماہ ہوگئے، مشکل سے پانچ یا دس فیصد کی حدتک مارکیٹ میں معیاری گوشت دستیاب ہے باقی ۸۰۔۹۰؍ فیصد حد تک گھٹیا قسم کا گوشت کھلے بندوں فروخت کیاجارہاہے۔کوئی چھاپہ ماری نہیں، کسی قانون کا احترام نہیں ، کوئی مجرم بھی اب نہیں رہا۔
یہی منظرنامہ مارکیٹ میںدستیاب دودھ کے تعلق سے ہے۔ کہیں سے بھی بغیر ملاوٹ کے دودھ دستیاب نہیں۔ دودھ میں پانی اور سٹیفنی پاوڈر کی ملاوٹ کوئی پوشیدہ راز نہیں ، بلکہ اب یہ اوسط شہری کوبھی معلوم ہے کہ وہ دودھ کے نام پر جو کچھ بازار سے خرید کرلارہا ہے وہ اصل میں کیا ہے اور کس چیز سے بناہے۔ یہی سٹیفنی کا دودھ بیکری،مٹھائیوں اور مشروبات کی تیاری میں استعمال ہورہاہے جبکہ گلے سڑے انڈے بھی بیکری کی تیاری میں استعمال میںلائے جارہے ہیں۔
یہی وہ ملاوٹ خور، قوانین کی دھجیاں اُڑانے والے اور مختلف خوردنی اشیاء کے نام پر لوگوں کو زہر کھلانے اور پلانے والوں کی گھروں کی دہلیز پر ’’ھٰذا مِن فضل رَبی‘‘ کی کنندہ تختی آپ ہر گذرنے والے کے دیدار کے لئے نصب پائیں گے۔