تحریر:ہارون رشید شاہ
روتے بلکتے ہوئے اس شخص نے وہ سوال کیا جس کا جواب گزشتہ ۳۰ برسوں سے کوئی نہیں دے رہا ہے… بالکل بھی نہیں دے رہا ہے۔یہ سوال تو بار بار پوچھا جارہا ہے ‘ لیکن… لیکن یہ سوال ‘ سوال بن کر ہی رہ گیا ہے ۔ہفتہ کی صبح علی جان روڈ پر ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر زخمی … شدید زخمی کر دیا گیا … شدید مطلب شدید ۔اس واقعہ کے بعد پولیس اہلکار کے بھائی نے روتے بلکتے ہوئے سوال کیا کہ اگر علاقے میں تعینات ایک دو سو پولیس اہلکاروں کو ’ہلاک‘ کرنے سے ہی ’آزادی‘ مل سکتی ہے تو پھر ٹھیک ہے تا کہ دوسرے لوگ سکھ اور چین سے زندہ رہ سکیں… اگر نہیں تو… تو پھر اس مار دھاڑ سے کیا حاصل ہو گا۔ اور یہی وہ سوال ہے جو ہرکوئی پوچھتا ہے …وہ جس کے سینے میں دل ہو پتھر نہیں ‘ جس کے سر میں دماغ ہے ‘گوبر نہیں … یہ پوچھتا ہے کہ آخر اس تشدد سے حاصل کیا ہو گا۔ کبھی کسی پولیس اہلکار کو نشانہ بنایا جا تا ہے… کبھی کسی عام شہری کو مارا جاتا ہے… کبھی کہیں پر گرینیڈ داغ کر عام لوگوں کو زخمی کردیا جاتا ہے۔مقصد کیا ہے‘ ہم نہیں جانتے ہیں … لیکن جو ایک بات ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ … کہ اس سب سے کشمیریوں کو ‘ عام لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے … انہیں اپنوں کی ‘ اپنے عزیزوں کی جدائی کا غم عمر بھر سہنا پڑتا ہے … ان کی زندگی ایک عذاب بن کے رہ جاتی ہے … یہ عذاب یہ قوم گزشتہ ۳۰ برسوں سے جھیلتی آئی ہے … خاموشی سے … لیکن صاحب سوال یہ کہ کب تک ؟ایسے واقعات بار بار کشمیری قوم کو غور و فکر کرنے کا موقع دیتے ہیں …یہ غور وفکر کرنے کا کہ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا … کیا روز کسی گھر کا چشم و چراغ‘ کسی باپ کا بیٹا ‘ کسی بہن کا بھائی ‘کسی بیٹی کا باپ ’نا معلوم‘ بندوق کی بھینٹ چڑھتا رہے گا … جبکہ پوری قوم کو معلوم ہے کہ … کہ یہ نا معلوم کون ہے اور… اور کون نہیں ؟بہ حیثیت ایک قوم کے ہمیں سوچنا چاہئے ‘ غور و فکر کرنا چاہئے کہ … کہ اگر ۳۰ برسوں سے انسانی لاشوں کو زمین پر گرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو… تو آئندہ بھی کیا حاصل ہو گا… یقینا کچھ حاصل نہیں ہو گا اور… اور بالکل بھی نہیں ہو گا ۔ ہے نا؟