نئی دہلی// عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے پورے شمالی ہندوستان میں لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے لیکن مرکزی حکومت کے پاس اس پر قابو پانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔اے اے پی کی سینئر لیڈر اور قومی ترجمان رینا گپتا نے ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جیسے ہی سردی کا موسم قریب آتا ہے ، پورے شمالی ہندوستان میں ہوا کا معیار خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ سردیوں کے موسم میں دمہ کے مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ سال 2019 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک مطالعہ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے 99.5 فیصد اضلاع میں ہوا کا معیار خراب ہے ۔ اگر اتنی بڑی ایمرجنسی ہے تو کیا مرکزی حکومت کو اس کے حل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے ؟ اس پر مرکزی حکومت کے پلان کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے ۔ پورے ملک میں صرف دہلی کے وزیر اعلیٰ ایسے ہیں جو ہر سال سردیوں اور گرمیوں میں ایکشن پلان کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آنے والے وقت میں دہلی کے لوگوں کو آلودگی سے بچانے کے لیے وہ کیا کیا قدم اٹھا رہے ہیں۔
محترمہ گپتا نے کہا، ”اگر ہم دنیا کے 50 آلودہ ترین شہروں کی فہرست لیں تو اس میں 39 شہر ہمارے ملک کے ہیں۔ 39 شہروں میں سے تقریباً 20 شہر اتر پردیش کے ہیں۔ اتر پردیش میں برسوں سے بی جے پی کی حکومت ہے ، لیکن آج تک ہم نے وہاں کے وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر کو فضائی آلودگی پر بات کرتے نہیں دیکھا۔ وہیں دہلی میں آلودگی کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کیا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کی ہوا 30 فیصد بہتر ہوئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 10 برسوں سے سپریم کورٹ اتر پردیش حکومت سے کہہ رہی ہے کہ اینٹ کے بھٹوں کا کوئی حل نکالا جائے کیونکہ ان سے بہت زیادہ فضائی آلودگی ہوتی ہے ۔ عدالت نے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کو بھی کہا لیکن اتر پردیش حکومت نے اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ آج بھی این سی آر میں اینٹوں کے 2000 بھٹے ہیں جو پرانی ٹیکنالوجی سے چل رہے ہیں۔ ان میں سے 150 بھٹے غازی آباد میں اور 250 مظفر نگر میں۔ ان تمام بھٹوں کا دھواں دہلی میں آتا ہے ۔
انہوں نے کہا، ”ہمارے ملک میں 39 سب سے آلودہ شہر ہونے کے باوجود بھی مرکزی حکومت کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔ ہماری مرکزی حکومت اسمارٹ سٹی کا اعلان کرتی ہے لیکن کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔ جب ہمارے بچے اچھی ہوا میں سانس نہیں لے سکتے تو کیا اسمارٹ سٹی کاغذوں پر بنائے جائیں گے ؟”