افغانستان میں شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے 22 افراد ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہوگئے، جب کہ فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حکام کے مطابق اس سے ملک میں جاری انسانی بحران میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ملک پر قابض طالبان حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی ریلیف اداروں سے مدد مانگ سکتی ہے۔
افغانستان کی نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی میں کمیونی کیشن اور انفارمیشن کے سربراہ حسب اللہ شیخانی کے مطابق طوفان اور سیلاب کی وجہ سے 12 صوبوں میں 22 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوئے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق ملک کے مغربی صوبوں، بادغیس اور فریاب اور شمالی صوبے بغلان میں بارش اور سیلاب میں شدت دیکھنے میں آئی۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان پر گہرا دکھ ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ پہلے سے ہی مشکلات کے شکار افغان عوام کی ہنگامی بنیادوں پر مدد کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے آگے آئے گا۔ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کے لیے امداد بھی بھیجے گا۔
افغانستان حالیہ کئی برسوں سے خشک سالی کا شکار رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے اور ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے جو پہلے ہی عشروں سے جاری جنگ، طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بیرونی امداد میں کمی اور بیرون ملک اثاثوں کے منجمد ہونے اور امریکہ کی سربراہی میں غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد عام ہو چکی تھی۔
شیخانی کے مطابق سیلاب سے 500گھر تباہ، 2 ہزار متاثر، 3 سو سے زائد مال مویشی ہلاک اور تین ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ریڈ کراس اس سلسلے میں ان کی مدد کر رہی ہے اور حکام دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی مدد کے لیے رابطہ کریں گے۔
رائٹرز کے مطابق بین الاقوامی برادری ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہے کہ چار کروڑ افراد پر مبنی ملک کی کیسے مدد کی جائے کہ اس سے طالبان کی ملک پر قابض حکومت اس امداد سے فائدہ نہ اٹھا پائے۔