نئی دہلی//
مقننہ میں خواتین کو ایک تہائی ریزرویشن دینے والے۱۲۸ویں آئینی ترمیمی بل کو لوک سبھا نے بدھ کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے پاس کرتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت میں طویل عرصے سے زیر التوا ایک تاریخی فیصلہ کیا۔
خواتین کو لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں میں ریزرویشن کے التزام والے ’ناری شکتی وندن بل۲۰۲۳‘کو آج لوک سبھا میں دن بھر چلی بحث کے بعد ووٹ کی تقسیم کے لیے پیش کیا گیا۔
لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے پرچی کے ذریعہ ووٹوں کی تقسیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بل کے حق میں۴۵۴؍اور اس کے خلاف دو ووٹ پڑے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئینی ترمیمی بل دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے منظور کیا گیا ہے ۔
وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں کارروائی کے پہلے دن قانون سازی کے کام کے ایک حصے کے طور پر منگل کو یہ بل ایوان میں پیش کیا تھا۔ آج دن بھر بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بل پر بحث میں شامل تمام جماعتوں نے اس کی حمایت کی ہے ۔
بحث میں مداخلت کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بل کو لاگو کرنے کے لیے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کی ضرورت کے بارے میں اراکین کے تجسس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بل کو لاگو کرنے کے لیے حد بندی ضروری ہے ۔ شاہ نے کہا’’بل میں آج کچھ کمی ہے تو اسے کل مکمل کردیا جائے گا‘‘۔
شاہ کی تقریر کے فوراً بعد بحث کا جواب دیتے ہوئے میگھوال نے کہا کہ تمام پارٹیاں اس بل پر متفق ہیں۔ بحث کے دوران کچھ سیاسی تبصرے کیے گئے جس کا وزیر داخلہ نے جواب دے دیا ہے ۔
ارکان نے بل پر کچھ ترامیم پیش کیں لیکن اسد الدین اویسی کی ترمیم کو صوتی ووٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ بیشتر ارکان نے اپنی ترامیم واپس لے لیں۔
اس سے پہلے ترمیمی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی رہنما سپریا سولے نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے خواتین کو ریزرویشن دینے کا بل لایا ہے لیکن یہ بینک کے پوسٹ ڈیٹڈ چیک کی طرح ہے ۔ یعنی نئی مردم شماری کب ہوگی، یہ تو معلوم نہیں، دوبارہ حد بندی کب ہوگی، یہ تو معلوم نہیں، لیکن اس کے بعد خواتین کو ریزرویشن ملے گا، اس کے لیے اب بل پاس کیا جارہا ہے ۔
سولے نے سوال کیا کہ اگر لوک سبھا اور اسمبلیوں میں خواتین کو ریزرویشن ہے تو راجیہ سبھا میں کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت راجیہ سبھا میں بھی ریزرویشن کا انتظام کرے ، ہم سب اس کی حمایت کریں گے ۔
سولے نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی خواتین وزراء ذاتی طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اگر خواتین کے لیے ریزرویشن میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کو مدنظر رکھا گیا ہے تو پھر دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کو اس میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟
سماج وادی پارٹی کی ڈمپل یادو نے کہا کہ ناری شکتی وندن بل میں دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقات کی خواتین کو بھی ریزرویشن دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ جب بی جے پی حکومت نے مرکز میں اپنے۱۰سال مکمل کئے تو اسے خواتین کی یاد آگئی لیکن ریزرویشن بل لانے کے باوجود بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔
یادو نے سوال کیا کہ کیا یہ ریزرویشن اگلے لوک سبھا انتخابات میں نافذ ہوگا یا نہیں۔ مردم شماری کب ہوگی؟ ذات پر مبنی مردم شماری ہوگی یا نہیں؟ حد بندی کب ہوگی؟
یادو نے کہا کہ وزیر اعظم نے اقلیتی خواتین کو تین طلاق سے آزاد کرایا ہے ، اس لیے وزیر اعظم کو ان خواتین کو بھی ریزرویشن دینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں حکومت پر’مکمل اعتماد‘ہے کہ وہ ان کی تجویز کو سنے گی، غور کرے گی اور اس پر عمل کرے گی۔
بی جے پی کے جسکور مینا نے کہا کہ جب اس وقت کی وزیر سشما سوراج نے۲۰۰۱میں ایوان میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا تھا تو سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے اسے ان کے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا تھا۔
مینا نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا ماننا ہے کہ مرد اور عورت دونوں رتھ کے دو پہیے ہیں اور رتھ دونوں پہیوں سے چلتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے قبائلیوں اور دلتوں کو ووٹ بینک نہیں سمجھا بلکہ انہیں حقیقی معنوں میں بااختیار بنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عمل مکمل ہونے کے بعد جب یہ قانون نافذ ہو گا تو اس ایوان میں۱۸۱بہنیں بیٹھیں گی۔
بیجو جنتا دل کی شرمستھا سیٹھی نے کہا کہ اوڈیشہ اسمبلی میں بی جے ڈی کے وزیر اعلی نوین پٹنائک نے اسمبلی میں خواتین کیلئے۳۳فیصد ریزرویشن کا بل پیش کیا تھا۔ انہوں نے اوڈیشہ حکومت کے خواتین کو بااختیار بنانے کے ماڈل کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بل میں دیگر پسماندہ طبقات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔
دراوڑ منیترا کزگم کے ٹی سماتھی نے کہا کہ یہ بل دیوالیہ بینک کا پوسٹ ڈیٹڈ چیک ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کبھی کیش ہوپائے گا۔ انہوں نے تمل ناڈو کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک مثالی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بل میں بہت سی کوتاہیاں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ اگر بی جے پی خواتین کی طاقت سے اتنی محبت کرتی ہے تو پھر اس نے پارلیمنٹ کا افتتاح صدر کے ذریعہ کیوں نہیں کرایا۔ بل کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔
ٍ صنعت وتجارت کی مرکزی وزیر مملکت انوپریہ پٹیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا میں خواتین کی شرکت کے معاملے میں بہت سے اعداد و شمار میں دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے ۔ اس لیے اس بل کو لانا وقت کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت خواتین کی قیادت میں ترقی کی بات کر رہی ہے ، اس کے لیے فیصلہ ساز اداروں میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کے مطالبات سنجیدہ ہیں، لیکن انہیں پورا بھروسہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اس تشویش کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالیں گے ۔
پٹیل نے کہا کہ مردم شماری کے نئے اعداد و شمار کے آنے کے بعد حد بندی ہوگی اور اضافی نشستیں بڑھیں گی۔ ایوان میں موجود ہر کوئی اس بل کو پاس کرانے کے موڈ میں ہے ۔ اس میں کوئی اگر مگر نہیں ہونا چاہیے اور حکومت ان کے تمام تحفظات کا ضرور خیال رکھے گی۔ اس لیے اسے مکمل اتفاق رائے سے منظور کیا جائے ۔
نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی نے کہا کہ۱۹۵۷میں جموں کشمیر کے آئین میں خواتین کو مکمل حقوق دیے گئے تھے ۔ اس بل میں جو حقوق خواتین کو دینے کی بات کی جا رہی ہے وہ۲۰۳۴تک کیوں التوا میں رکھے جائیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ بی جے پی جس بل کی حمایت کر رہی ہے اس نے آئین کی۶۴ویں ترمیم کی مخالفت کی تھی۔
بی جے پی کی محترمہ گومتی سائی اور لوک جن شکتی پارٹی کی وینا دیوی نے بھی بحث میں حصہ لیا اور بل کی حمایت کی۔