کشمیر کی سیاحتی صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنی غالباً خود کشمیر، سالہاسال سے بلکہ صدیوں سے کشمیر کی سیاحت کو دُنیا کے نقشے پر خاص اہمیت حاصل ہے، ہر دورمیں ملکی اور غیر ملکی سیاح واردِ کشمیر ہوتے رہے ہیں، اس حوالہ سے کئی ایک غیر ملکی سیاحوں کے کشمیرکے تعلق سے سفر نامے آج کی تاریخٰ میں بھی دستیاب ہیں۔
وقت گذرتے کشمیرکی سیاحت کو بتدریج ترقی ملتی رہی نتیجتاً لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح واردِ کشمیر ہوتے رہے۔ سیاحوں کے کشمیر کی سیاحت کے حوالہ سے جو سفرنامے دستیاب ہیں ان میں نہ صرف روئیداد سفر کے حوالہ جات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ ان مقامات کی خوبصورت انداز میں منظر کشی بھی ملتی ہے جو بقول ان سیاحوں کے جاذب نظر ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان مقامات کی ترقی ممکن نہیں ہوسکی۔
ان مقامات کی ترقی میں کئی ایک عوامل کار فرما ہیں ۔ جن میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور عدم توجہی رسل ورسائل اور مواصلات کا گہرا فقدان ، ان علاقوں تک پہنچنے کیلئے سڑکوں کی خستہ حالی اور ٹرانسپورٹ کا نامعقول بندوبست، متعلقہ مقامات پر ادارتی ڈھانچہ کی صفر دستیابی، قیام وطعام کے تعلق سے غیر موثر انتظامات وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پھرا س مخصوص صنعت سے وابستہ جو لوگ اور ادارے رہے ہیں وہ سیاحوں کی آمد اور ان کے حوالہ سے سیر سپاٹا،خرید وفروخت وغیرہ کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن خود ان کا حال اور اپروچ یہ رہا ہے کہ انہوںنے تمام تر سہولیات سے مزین ادارتی دھانچہ کی تعمیر وتشکیل کی سمت میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔
۳۰؍ سالہ شورش کے دوران کشمیرکی سیاحتی انڈسٹری کوجو ناقابل بیان دھچکہ لگ گیا وہ اب کسی وضاحت کا محتاج نہیں ۔ اگر چہ اس مدت کے دوران بھی کچھ نہ کچھ تعدادمیں سیاح واردِ کشمیر ہوتے رہے ہیں لیکن ڈر، خوفزدگی اور نامسائد حالات ان کے راستے میں حائل ہوتے رہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے غیر مستحکم حالات نے کشمیر کی سیاحت کو بہت حد تک نقصان پہنچایا جس کا منفی اثر حصول روزگار وغیرہ کے تعلق سے اس صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد پر مرتب ہوا، کوئی قرض میںڈوبتا چلا گیا تو کوئی پیٹ کا دوزخ بجھانے کیلئے اثاثوں اور املاک کو فروخت کرنے پر مجبور ہوا۔
اب حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ قیام امن نے سیاحوں کو ایک مرتبہ پھر کشمیرکی طرف راغب کیا اور انہیں کشمیر کی سیاحت کی ترغیب مل رہی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اس خیا ل سے اتفاق ہے کہ چاہئے سیاحت ہو یاترقیات کے امور ان کیلئے امن کا ہونا لازمی ہے اور امن کے بغیر کسی بھی شعبے کی ترقی اور نشونما ممکن نہیں۔
حکومت سیاحتی نقشے پر درجنو ں نئے مقامات لانے اورانہیں ترقی دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس تعلق سے پہلے سے موجود سیاحتی مراکز کی نشاندہی کی جارہی ہے جن کی تعداد سرکاری اعلانات کے مطابق تین سو کے قریب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان سارے نئے سیاحتی مراکز تک پہنچ جانے کے لئے کیا سہولیات دستیاب ہیں، کیاان نئے مقامات پر سیاحوں کی سہولیات اور قیام وطعام کے تعلق سے ادارے موجود ہیں، معمولی نوعیت کے چائے سٹال اور سنیکس کی دستیابی سیاحوں کو ان نئے مقامات پر قیام کرنے کی تحریک کا باعث نہیں بن سکتے ہیں۔
ظاہرہے ان نئے مقامات تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سڑکوں اور رابطہ سڑکوں کی تعمیر، انٹرنیٹ کی سہولیات، قیام وطعام اور دیگر تفریحی ذرائع کی دستیابی درکار ہے جو کسی بھی سیاح کو کم سے کم رات بھر قیام کیلئے ترغیب وتحریک کا موجب بن سکتے ہیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری درکا ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق کم سے کم ۳۰؍ ہزار کروڑ کی ابتدائی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ کثیر رقم کہاں سے دستیاب ہوگی، اس سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کیلئے قابل عمل اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
سیاحت سے وابستہ مقامی سٹیک ہولڈروں میں سے بہت سارے سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ انہیں اعتماد میں لے کر ان نئے سیاحتی مقامات کو گود میں لینے کے تعلق سے ان سے مشاورت بھی کی جاسکتی ہے اور مناسب پیشکش بھی۔ ضروری نہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری طلب کرلی جائے، کیونکہ ایسی کسی سرمایہ کاری کیلئے بہت کچھ، مقامی مفادات کے تعلق سے، دائو پر لگانا پڑتا ہے، جو درست نہیں!
لازمی نہیں کہ ان مقامات پر بڑے بڑے پانچ، چار اور تین سٹار ہوٹل قائم کئے جائیں،سیاحوں کی سہولیات کی خاطر اورانہیں سیاحت پر راغب کرنے کیلئے ہٹ(Hut) طرز کے قیام وطعام کا ایک وسیع جال بچھایا جاسکتا ہے، جس کے قیام وتعمیر کیلئے زیادہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری درکار نہیں، اس حد تک تو مقامی سٹیک ہولڈر سرمایہ کاری کرکے ابتدائی ڈھانچہ کھڑا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جموںوکشمیر بینک سمیت وہ سارے بینک جو جموں وکشمیرمیں کام کررہے ہیں کو اس نوعیت کے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کا پابند بنایاجاسکتاہے۔
اس حوالہ سے یہ امر قابل ذکر ہے اور عام تاثر بھی یہی ہے کہ بینک مقامی آبادی یعنی کھاتہ داروں سے ڈیپازٹ کی صورت میں سرمایہ تو وصول کررہے ہیں لیکن اُس سرمایہ کا اچھا خاصہ حصہ بیرون جموںوکشمیر قرضوں کی صورت میں دیا جارہاہے۔ یہ طریقہ کار آج کا نہیں بلکہ گذری کئی دہائیوں کے دوران بھی اس طریقہ کار کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ لیڈ بینک کے حوالہ سے اجلاسوں میں بھی یہ معاملات زیر غور آتے رہے ہیں ۔جموں وکشمیر بینک کا عموماً یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ مقامی سطح پر سرمایہ کاری کے حوالہ سے اکیلے زائد از پچاس فیصد اداکرتا رہا ہے لیکن باقی بینک نامعلوم وجوہات اور مصلحتوں کے تابع مقامی سطح پر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی نہیں کررہے ہیں۔ بینکوں کا یہ طرزعمل اور انداز فکر جموںوکشمیر دُشمنانہ بھی ہے اور تعصب سے عبارت بھی ہے، اس اندازفکر اور طرزعمل سے بینکوں کو ہدایت دی جاسکتی ہے کہ وہ اب بدلتے منظرنامے میں اجتناب کریں۔