نئی دہلی/۴ ستمبر
مرکز نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ چاہتا ہے کہ نیشنل کانفرنس لیڈر‘ محمد اکبر لون 2018 میں جموں و کشمیر اسمبلی میں ’پاکستان زندہ باد‘کا نعرہ لگانے کےلئے معافی مانگیں۔
لون اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں نہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کیا ہے جس نے سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی تھی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ کو مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بتایا کہ لون اس شق کی منسوخی کو چیلنج کرنے والے سرکردہ عرضی گزار ہیں، لیکن انہیں یہ بتانا ہوگا کہ وہ آئین کے ساتھ وفاداری کا پابند ہے۔ ایوان کے فلور پر نعرہ لگانے پر معافی مانگیں۔
بنچ جس میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت بھی شامل ہیں نے کہا کہ وہ لون سے بیان طلب کرے گا، جب ان کی جوابی دلائل کی باری آئے گی۔
بنچ نے کہا کہ اس نے اخبار میں شائع رپورٹ کا جائزہ لیا ہے اور عدالت میں کی گئی عرضیوں کا نوٹس لیا ہے۔
مہتا نے کہا”سینئر لیڈروں کے ان بیانات کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ اگر معافی نہ مانگی جائے تو اس سے دوسروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس کا اثر جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر پڑے گا“۔
مہتا کی حمایت سینئر وکیل راکیش دویدی اور وی گری نے کی، جو مداخلت کاروں کے لیے پیش ہو رہے ہیں اور منسوخی کی حمایت کر رہے ہیں، کہ لون کو نعرے لگانے پر معافی مانگتے ہوئے حلف نامہ پیش کرنا چاہیے۔
یکم ستمبر کو ایک کشمیری پنڈت گروپ نے سپریم کورٹ میں لون کی اسناد پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ علیحدگی پسند قوتوں کا حامی ہے۔
سپریم کورٹ میں مداخلت کی درخواست ایک این جی او’روٹس ان کشمیر‘ کی طرف سے دائر کی گئی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیری پنڈت نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو اس معاملے میں کچھ اضافی دستاویزات اور حقائق کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس نے الزام لگایا کہ لون کو ’جموں کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسند قوتوں کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے، جو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔“ (ایجنسیاں)