تحریر:ہارون رشید شاہ
تو صاحب خبر یہ ہے کہ ان کتوں نے …ان کمینے کتوں نے ڈلگیٹ میں ملک کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک آدھ درجن سیاحوں کو بھی کاٹ کھایا ہے ۔واقعی میں یہ ایک اچھی خبر نہیںہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے لیکن کیا کیجئے گا کہ جس طرح سیاحت ملک کشمیر کا حصہ ہے اسی طرح کتے بھی وادی کشمیر کا اتوٹ انگ ہیں ۔وہ کیا ہے کہ سیاح … ملک کشمیر کے سیاح جب کشمیر آتے ہیں تو ان کی کوشش رہتی ہے کہ وہ کشمیر کا چپہ چپہ نہ سہی لیکن وہ سب دیکھ سکیں جس کیلئے کشمیر مشہور ہے … گلمرگ ‘ پہلگام ‘ سونہ مرگ اور مغل باغات … اس کے ساتھ ساتھ سیاح یہاں کے منفرد کھانوں سے بھی لطف اندوز ہو تے ہیں… یہاں کی سکہ تج کھائے بغیر ان کا ملک کشمیر کا دورہ نامکمل تصور کیا جاتا ہے … اور ہاں اس کے علاوہ ان سیاحوں کو ملک کشمیر کی روایتی مہمان نوازی کا بھی مشاہدہ … عملی مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے … ہمارا ماننا ہے کہ اگر سیاح ملک کشمیر کے مختلف پہلوؤں سے روبرو نہیںہوں گے تو… تو پھر ان کا یہاں آنے کا کیا فائدہ … معاف کیجئے گا مگر یہ سچ ہے کہ جس طرح یہاں کے حسین و جمیل نظارے ملک کشمیر کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے وہیں ملک کشمیر کی سڑکوں پر راج کررہے آوراہ کتے بھی ملک کشمیر کا اٹوٹ انگ ہیں… آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیںکہ کتے کشمیر کیلئے بنے ہیں اور کشمیر کتوں کیلئے … دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے… یوں تو ان کتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوئی کوشش ہوئی نہیں … کہ کہیں انسانوں سے زیادہ کتوں سے محبت کرنے والے خفا نہ ہو جائیں … ناراض نہ ہو جائیں … لیکن… لیکن صاحب اگر کبھی کوئی ایسی سنجیدہ کوشش ہو تی بھی تو… تو اللہ میاں کی قسم وہ کوشش بھی ناکام ہوتی… اس کوشش کو بھی ناکام ہو نا ہی تھا اور… اور اس لئے ہو نا تھا کہ… کہ جس طرح ملک کشمیر کو کوئی ملک ہندوستان سے جدا نہیں کر سکتا ہے… الگ نہیںکر سکتا ہے … بالکل اسی طرح ان کتوں کو … آوارہ کتوں کو جنہوں نے سیاحوں کو بھی اپنی موجودگی کا بھر پورہ احساس دلایا … ان کو بھی ملک کشمیر سے کوئی الگ ‘کوئی جدا نہیں کر سکتا ہے اور… او ر بالکل بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ ہے نا؟