روز مرہ کاروبار سے وابستہ لوگوں کے مختلف طبقے کشمیرکے بازاروں کے ’بے تاج بادشاہ‘ ہیں،ان کی اپنی سلطنتیں ہیں جن کیلئے یہ اصول خود وضع کرکے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ یہ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح سے یہ معلوم ہے کہ ’ہم بہت طاقتور‘ ہیں اور کوئی بھی ’ہماری من مانیوں‘ کی راہ میں مزاحم ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے۔ چاہئے حکومت کوئی بھی ہوکسی کی بھی ہو۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتاہے کہ یہ کشمیرکے بازاروںکے انتہائی طاقتور مافیاز کا روپ اب گذرتے وقت کے ساتھ دھارن کرچکے ہیں۔
ہر سال کی طرح اب کی باربھی عید کی آمد آمد ہے، خریدوفروخت کا بازار گرم ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تہواروں، مذہبی ہویاموسمی ، پر قیمتوں میںکچھ نہ کچھ اضافہ حیران کن نہیں بلکہ بھائو دیکھو بازار دیکھو کا ہی دوسرا چہرہ ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اگر چہ حیران کن نہیںلیکن یہی اضافہ جب من مانا اندازمیں استحصال کے تمام حدود کو پھلانگ کر لوٹ کی دہلیز بھی عبور کرجائے تو ظاہر ہے انسانی عقل کا مائوف ہونا پھر ایک قدرتی اور فطرتی ردعمل کے زمرے میں ہی شمار ہوسکتی ہے۔
عمومی تاثر یا ردعمل یہ ہے کہ کشمیرکے بازاروں پر مختلف کاروبار اور تجارت سے وابستہ طبقے مافیاز کا روپ دھارن کرچکے ہیں جو بازاروں میںدند ناتے پھر رہے ہیں اور مارکیٹ پر ہر قیمت پر اپنی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی راہ میں کوئی معمولی دقیقہ بھی فروگذاشت نہیں ہونے دیتے۔ کوئی ایڈمنسٹریٹر دبائو ڈالے ، راستہ روکنے کی کوشش کرے یہ مافیا اس کی ٹیبل پر چند چمکتے سکے پھینک کر اپنا راستہ ناپ لیتے ہیں۔
۱۹۴۷ء سے اب تک ہر حکومتی اور انتظامی ادوارمیںیہی منظرنامہ مشاہدہ میں ہے جبکہ آج کی تاریخ میں منظرنامہ جو کچھ بھی سابق منظرناموں سے زرہ بھر بھی مختلف نہیں۔ کشمیرکی صوبائی ایڈمنسٹریشن ، چاہئے اس ایڈمنسٹریشن کا سربراہ مقامی ہو یا غیرمقامی ، اس طاقتور مافیا کے سامنے اور اس کے اختیار کردہ راستوں ، طور طریقوں ،ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہی ثابت ہوچکا ہے، ہر سال گوشت ، پولٹری ،ساگ سبزی، دیگر اشیاء کی قیمتوں کا سرکاری سطح پر تعین تو کیاجارہاہے لیکن عملی جامہ پہنانے اور سختی سے نافذ العمل بنانے کا گہرا فقدان اب ایک تاریخی حقیقت ہے جس کی تردید ممکن نہیں۔
اس میں بھی دور ائے نہیں کہ صوبائی ایڈمنسٹریشن کے کچھ ذمہ دار ادارے آئے روز مارکیٹ چیکنگ کررہے ہیں ، قصورواروں سے جرمانے وصول کررہے ہیں جو سالانہ کچھ لاکھ روپے تک بنتے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ یہ جرمانے قصوروار بڑے پُر سکون انداز سے اداکررہے ہیں کیونکہ اس جرمانہ کی رقم کی وصولی بھی وہ اپنے خریداروں سے ہی کررہے ہیں۔ لیکن وہ اس جرمانے کو اپنے لئے کوئی سزا یا تضحیک وتذلیل تصورنہیں کرتے۔ ابھی چند روز قبل کئی دکانوں بشمول قصابوں کی کچھ دکانوں کو مقفل کرلیاگیا تھا ، پھر کیا ہوا، کچھ دنوں کے بعد ہی انہیں باعزت بحال کرلیاگیا۔
کیا گوشت ،پولٹری وغیرہ کی قیمتیں مقرر کرنے کے بعد کسی نے ان قیمتوں کو ملحوظ خاطررکھا؟ جواب نفی میں ہے۔ خلاف ورزی کی ایسی جرأت طاقتور مافیا ہی کرسکتی ہے اوسط شہری نہیں!
کشمیر وینس ہے، نہ دبئی اور نہ واشنگٹن ، بلکہ ایک اوسط خطہ ہے جس کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ خطہ افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہاہے۔ آبادی کا ایک اور اچھا خاصہ حصہ اوراُس حصے میں جنم لے رہے بچے یہاں تک کہ ان کے والدین کم غذائیت کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ البتہ آبادی کا ایک اور حصہ بے شک اشرافیہ کہلا سکتاہے ۔ اس طبقے کیلئے چڑھتی بڑھتی قیمتیں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک طرح سے سوال نہ کرکے یہ طبقہ بازاروں کا ناجائز استحصال کرنے کے خوگر کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کا بُنیادی کرداراداکررہاہے۔
بیکری والوں کی لوٹ فی الوقت ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک پونڈ وزنی کیک (پیسٹری) کی قیمت کم سے کم ہزار روپے مقرر، سوگرام اوسط درجے کے کیک کی قیمت سو اور دو سو روپے کے درمیان وصول کی جارہی ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں، ریڈی میڈ دکانوں کی لوٹ تو اب ۷۲؍سال کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ سرکاری مارکیٹ چیکنگ سکارڈوں کے مٹر گشت کا اطلاق اس کاروباری طبقے پر نہیں۔
قصاب اور کوٹھداروں پر مشتمل مافیا کشمیر ی عوام کو بھیڑ بکریوں کا تسخیر شدہ ریوڈ تصور کرکے سی اور ڈی کلاس بھیڑ بکریاں کھلا کر اپنی بھر پور شکم پری میں مصروف ہے۔ ماہ صیام کے دوران اس طبقے نے لوگوں کی مجبوریوں کا بھر پو ناجائز فائدہ اُٹھاکر ہندوستان بھر سے گھٹیا قسم کا گوشت فروخت کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کرلئے ، کیا ایڈمنسٹریشن کے کسی ذمہ دار کل پرزے نے اس حوالہ سے پوچھ تاچھ کی، کوئی استفسار کیا، کوئی نوٹس لی، نہیں، سچ تویہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن بے اعتنائی کے راستے پر گامزن ہے، اسکی اپنی ترجیحات ہے، اپنے مخصوص مفادات ہیں، جس میں لوگوں کے مجموعی مفادات کے تحفظ کیلئے کوئی جگہ نہیںہے۔
معاملہ بہت طویل اور لمبا ہے، دراصل اس سارے استحصال کی جڑ یہ ہے کہ کشمیر گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران خودکفالت سے محروم ہوکر کھپت والا کشمیر کے طور اُبھرچکا ہے۔ معمولی گھاس کے تنکے سے لے کر سوئی تک، اشیاء خوردنی سے لے کرتیل غرض ہر شئے کے حصول کیلئے کشمیر دست نگر اور محتاج بن چکاہے۔ اس محتاجی کی ہی یہ سزا ہے جو عوام کو بحیثیت خریدار بھگتنا پڑرہاہے۔ یہ منظرنامہ خود ہمارے ہاتھوں کا ہی تراشہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس منظرنامہ کے کھنڈرات سے کچھ طبقے ڈراکیولہ کی طرز پر سامنے آئے اور موقعہ محل غنیمت سمجھ کر استحصالی ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں۔ جس استحصال اور لوٹ کی راہ میں نہ عوام مزاحم ہوپارہے ہیں اور نہ ہی ایڈمنسٹریشن !!