کہنے کو تو صاحب سبھی کہتے ہیں کہ … کہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اور… اور اسے ایک آئینی مسئلہ سمجھ کر ہی سپریم کورٹ میں لڑا بھی جا رہا ہے…لیکن صاحب سچ تو یہ ہے کہ بھلے ہی دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ کو چیلنج کرنے والا کیس ایک آئینی مسئلہ ہے ‘ لیکن… لیکن صاحب یہ مسئلہ تو سیاست کی ہی کوکھ سے پیدا ہوا نا… اس لئے اس مسئلہ… آئینی مسئلے سے سیاست کو کیسے دور رکھا جا سکتا ہے… نہیں رکھا جاسکتا ہے اور… اور اللہ میاں کی قسم کوئی دور رکھنے کی کوشش بھی نہیں کررہا ہے… اگر ایسا ہو تا تو… تو سمرتی ایرانی صاحبہ پارلیمنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں نہیں کہتی کہ دفعہ ۳۷۰ ماضی ہے… قصۂ پارینہ ہے… ایرانی صاحبہ کی ہی جماعت کے مختار عباس نقوی یہ فتویٰ نہیںدیتے کہ … کہ دفعہ ۳۷۰ کو ملک کی پارلیمنٹ نے ختم کردیا ہے اور ملک کی پارلیمنٹ سے بڑا کوئی ادارہ نہیں ہے… بی جے پی جموں یونٹ کے صدر ‘ رویندر رینا نہیں فرماتے کہ… کہ اب ۳۷۰ واپس لوٹ کے آنے والی نہیں ہے… سمرتی ایرانی صاحبہ ‘ نقوی صاحب اور اپنے رینا جی ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں… ایسے سیاسی بیان اس لئے دے رہے ہیں کیوں کہ انہیں بھی معلوم ہے … یا ان کو ہی معلوم ہے کہ دفعہ ۳۷۰ سپریم کورٹ کے اندر ایک آئینی مسئلہ ہو سکتا ہے ‘ لیکن سپریم کورٹ کے باہر نہیں کہ… کہ سپریم کورٹ کے باہر یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے … ایسا سیاسی مسئلہ جس پر بی جے پی ہی نہیں بلکہ دوسری جماعتیں بھی سیاست کررہی ہیں… کانگریس پارٹی ۳۷۰ پر خاموشی … مکمل خاموشی اختیار کرکے اس پر سیاست کررہی ہے… جموں کشمیر کی سیاسی جماعتیں ‘ اس کیس کو سپریم کورٹ لے جا کر سیاست کررہی ہیں کہ… کہ انہیں معلوم ہے‘ انہیں خبر ہے کہ اگر کل کو سپریم کورٹ نے ۳۷۰ کے حوالے سے چھوٹی سی چھوٹی رعایت بھی دی تو… تو اس کے بڑے سیاسی فائدے ہوں گے ‘ ان کیلئے ہوں گے جو اس وقت سپریم کورٹ میں لڑ رہے ہیں… اندازہ لگائیے ‘ جی ہاں صرف اندازہ لگائیے کہ اگر … جی ہاں اگر سپریم کورٹ نے ۳۷۰ کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ سنایا جو۵؍اگست ۲۰۱۹کو لئے گئے فیصلوں کے آگے سوالیہ نشان لگائے تو… تو بی جے پی کا کتنا نقصان ہو گا… سیاسی نقصان ہو گا … اس لئے صاحب ۳۷۰ کی منسوخی کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ کے اندر ایک آئینی مسئلہ ہے… باہر نہیں ‘ بالکل بھی نہیں کہ باہر یہ ایک بڑا نہیں بلکہ بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے …بہت بڑا۔ ہے نا؟