نو سال قبل تیزاب حملے میں ملوث پائین شہر کے دو اوباشوں کو مقامی عدالت نے عمر قید اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت کے جج نے یہ سزا مروجہ قانون اور اس نوعیت کے جرائم کے تعلق سے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دی جس سز اکو ماثرین نے تاخیر سے ہی سہی لیکن انصاف کی ترسیل قراردیا۔
تیزاب حملے سے متاثرہ خاتون ان ۹؍برسوں کے دوران جس عذاب اور کرب سے گذری، اپنی زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کیلئے اسے کیا کچھ سہنا پڑا ہوگا، علاج ومعالجہ کے تعلق سے اخراجات کا حجم کیا رہا اور ان اخراجات کیلئے سرمایہ کی دستیابی کیلئے خو د اسے اور اس کے لواحقین کو کن روح فرسا اور انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گذرنا پڑا اس کا ہر پہلو اور ہر باب ایک علیحدہ علیحدہ داستان ہے جس جسمانی کرب وعذاب کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور روحانی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا اندازہ ہم ٹھیک ٹھیک طرح سے تو نہیں کرسکتے البتہ مثل کے مترادف ’’ جس تن لاگے وہی تن جانے‘‘۔
بہرحال جج موصوف نے مروجہ قانون کی روشنی میں مجرمان کو سزا تو دی ہے ، اس سے قانون اور ظاہری انصاف کے تقاضے تو پورے ہوئے ہیں لیکن سول سوسائٹی کاوہ حلقہ جو ایسے معاملات کے تعلق سے بے حد حساس اور سنجیدہ ہے اس سزا کو نہ عبرت ناک تصور کررہے ہیں اور نہ ہی اُس حجم کا جس حجم اور نوعیت کا جرم ان سے مرتکب ہوا ہے۔ بلاشبہ وکیل نے مجرموں کو سزائے موت اور بھاری جرمانہ عائد کرنے کا مطالبہ دلائل پیش کرنے کے دوران کیا لیکن مروجہ قوانین کی روشنی میں عدالت کے ہاتھ بندھے ہیں اور اُن سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ پھر بھی عمر قید کی سزا دے کر متاثرہ خاتون کو کچھ راحت تو ضرور محسوس ہوئی ہوگی۔ لیکن اس وقتی راحت کے باوجود حملہ کے نتیجہ میں جو کچھ بھی اس کو سہنا پڑا ہے اس کی ٹیس وہ عمر بھر محسوس کرتی رہیگی جبکہ تیزاب حملے کے نتیجہ میں جس درد وکرب سے اُسے گذرنا پڑا ہے وہ اس کیلئے زندگی بھر کا روگ ثابت ہوگا۔
ہماری تمام تر ہمدردیاں اس متاثرہ خاتون کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دست بددعا ہیں کہ وہ اس درد اور کرب جو اسے اب تک سہنا پڑا ہے کے عوض بہتر صلہ عطاکرئے ،خوشگوار او ر پُر مسرت اور پرسکون زندگی عطاکرے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا بھی کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جو لوگ اپنائیت کی آڑ لے کر اس نوعیت کے مجرمانہ فعل کا ارتکاب کررہے ہیں انہیں اسی نوعیت اور حجم کے عذاب میں مبتلا رکھے تاکہ وہ دوسروں کیلئے نشانہ عبرت بن سکیں۔
کشمیر کچھ ہی برس قبل تک سنگین نوعیت کے مجرمانہ جرائم سے تقریباً پاک اور آزاد تھا لیکن نہ جانے اس کشمیر اور اس کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو کس شیطان کی نذر لگ گئی کہ سب کچھ اب نہ صرف بکھرتا نظرآرہاہے بلکہ یہ بکھرائو سماجی سطح پر ہر گلی اور ہر کوچہ اور ہر نکڑ پر خلفشار ، تخریب ،فساد اور مختلف نوعیت کے جرائم کی صورت میں واضح طور سے نظرآرہاہے۔
کشمیر کے طول وارض میں مختلف نوعیت کے جرائم کا گراف ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہاہے، جنسی درندگی، اغوا، قتل فراڈ، دھوکہ دیہی ، جعلسازی ، ریاکاری، فریب اور دوسرے بہیمانہ نوعیت کے جرائم اب روز کا معمول بن کر کبھی کسی دورمیں جنت بے نظیر کہلانے والے کشمیرکا دوسرا عنوان بن چکا ہے۔ منشیات کی لت، نشہ آور ادویات اور اشیاء کی آسان دستیابی ،کشمیر کی سرزمین سے اُبھر رہے جرائم کی فہرست میں محض ایک اضافہ تصور کیاجاسکتا ہے۔ حکومتی اداروں کے اعداد وشمارات کے مطابق منشیات کی لت میں گرفتار آبادی میں اضافہ جاری ہے جو فی الوقت ساڑھے ۱۳؍لاکھ کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔یعنی دوسرے الفاظ میں جموںوکشمیر کی مجموعی آبادی کا زائد از دس فیصد منشیات کی لت میں آچکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کشمیر اور جموں کی سول سوسائٹیاں بے اعتنا اور بے حس وحرکت پڑی تماشہ دیکھ رہی ہیں۔
کشمیر ہو یا جموں جرائم کے بڑھتے اس گراف کی کئی ظاہری اور پوشیدہ وجوہات ہیں، اس وباء کے پھیلنے کا تعلق صرف بے روزگاری یا کم روزگاری ایسے کارنوں سے وابستہ رکھنا درست نہیں ہے جیسا کہ سیاسی سطح پر بعض سیاستدان اب یہی راگ کچھ عرصہ سے مستقل طور سے الاپ رہے ہیں ۔ ان بڑھتے جرائم کے پیچھے جو کچھ بھی وجوہات ہیں یا ہوسکتی ہیں قطع نظراُن کے سوال یہ ہے کہ سوسائٹی اور ایڈمنسٹریشن بحیثیت مجموعی ان کی روک تھام میں ناکام کیوں نظرآرہی ہے۔جوان جرائم کی سرپرستی کررہے ہیں وہ اب بتدریج مافیاز کا روپ دھارن کرتے جارہے ہیں۔ اگر چہ نچلی سطح پر چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کا آئے روز شکار کیاجارہاہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اب تک کوئی بڑی مچھلی جس کا تعلق مافیا سے ہو یا جو خود مافیا بن کر جرائم میں سراپا ملوث رہا ہو قانون کی گرفت میں نہیں آسکا ہے ۔
گن کلچر بھی جرائم کی دُنیا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گن چاہئے لائسنس یافتہ ہو یا بغیر لائسنس کے یہ نشہ اور بدمستی کو بھی پروان چڑھانے کا موجب بن جاتا ہے۔ جب تک کشمیر میں گن نہیں تھا جرائم کی دُنیا بھی آباد نہ تھی، لیکن گن کے نمودار ہوتے ہی جرائم کی دُنیا بھی آباد ہوتی گئی۔ گن کا تعلق صرف جنگجوئیت اور دہشت گردی سے ہی مخصوص نہیں بلکہ یہ بہت سارے جرائم کیلئے تحریک بھی دیتا ہے، اُکساتا بھی ہے اور ساتھ ساتھ اپنی جرائم سے عبارت دُنیا بھی آباد کرتا جارہاہے۔
معاشرہ حساس ہو، ذمہ دار ہو، سنجیدگی ہو، تو جرائم زیادہ پھلتے پھولتے نہیںبلکہ ان میں زیادہ شدت بھی نہیں ہوتی لیکن معاشرتی سطح پر جب یہ ذہن اور انداز فکر سے عبارت خوگریت حاوی ہوکہ ’مجھے کیا اور میرا کیا‘ تو جرائم کی دُنیا بھی تیزی کے ساتھ پروان چڑ ھ جاتی ہے اور جرائم کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور جرائم کاگراف بھی ہر طلوع سحر کے ساتھ بڑھتا جارہاہے۔ یہی کشمیر میں اب ہورہاہے ۔ معاشرتی سطح پر بے اعتنائی اور بے حسی سے عبارت رویہ قوموں کی بربادی اور تباہی کا موجب ماضی سے بھی ثابت ہے اور عصر حاضر بھی اس حوالہ سے واضح ہے۔
بہرحال کشمیرکا یہ منظرنامہ کئی حوالوں سے ایسے کئی عناصر ، جو کشمیر کے تعلق سے حریص ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ کشمیرامن ،سکون اور ترقی سے ہم کنار ہوتا رہے وہ ایسے منظرنامہ کو مختلف طریقوں سے پروان چڑھانے اور جرائم سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی کیلئے ٹوہ میں رہتے ہیں حساس اور فکر مند حلقوں کیلئے باعث تشویش ہے۔ لیکن صرف اظہار تشویش مسائل اور معاملات کا حل نہیں بلکہ عملی کرداراور بے حسی کا لبادہ اُتار پھینکنا معاشرتی اقدار، صحت، سلامتی اور بقاء کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہے۔