نئی دہلی// دہلی ہائی کورٹ ویمن لائرز فورم نے نوح تشد کے بعدخوف کا ماحول پیدا کرنے والی نفرت انگیز تقاریر اور ویڈیوز پر پابندی عائد کرنے کے لئے ہریانہ حکومت کو ہدایت دینے کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سے درخواست کی ہے ۔
خواتین وکلائنے ایک خط پٹیشن کے ذریعے ہریانہ حکومت کو نفرت پھیلانے والے ویڈیو کو نشان زد کرے اور اسے متعلقہ لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی ہے ۔
پٹیشن پر 101 خواتین وکلائکے دستخط ہیں، جن میں ان ویڈیوز کی شناخت کرکے اور ان پر پابندی لگانے کی استدعا کی گئی ہے ۔ ایسی ویڈیوز پر پابندی لگانے کی درخواستیں کی گئی ہیں جو مبینہ طور پر کسی کمیونٹی، عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے یا معاشی بائیکاٹ پر زور دینے کی دھمکی دیتی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ خواتین، ماو[؟][؟]ں اور عدالت کے کام سے وابستہ ہونے کے ناطے ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قانون کی حکمرانی اور ذمہ داری کے احساس کے لیے مضبوط وابستگی محسوس کرتے ہیں۔
جسٹس چندر چوڑ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ہریانہ کے نوح علاقے میں حالیہ واقعات کے پیش نظر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور ہدف بناکرتشدد بھڑکانے والی ویڈیوز کے سامنے آنے سے سنگین تشویش پیدا ہوئی ہے ، جو معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کو بگاڑ رہے ہیں۔
خواتین وکلائنے اپنیخط کی عرضی میں کہا،[؟]ہم، دہلی اور گڑگاو[؟][؟]ں میں رہنے والی قانونی برادری اور دہلی ہائی کورٹ ویمن لائرز فورم کے اراکین کے طور پرہم اس خط کی عرضی کے ذریعے سے آپ کے نوٹس میں لانے اور اس حقائق کو لانے کے لئے آپ کے علم میں لانے کے لئے رابطہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریریں پھیلائی جا رہی ہیں۔[؟]
درخواست میں سپریم کورٹ کی طرف سے بار بار جاری کی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی ہے ۔
درخواست میں‘شاہین عبداللہ بنام یوحکومت ہند’معاملے میں 11 اگست 2023 کوعدالت عظمی کے تبصرہ کا حوالہ دیا گیا کہ کمیونٹیکے درمیان ہم آہنگی اور ہمدردی ہونی چاہیے اور نوح میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلم کمیونٹی کے بائیکاٹ کرنے کی اپیل کا مطالبہ‘ ناقابل قبول’ تھا۔
درخواست میں ‘تحسین ایس پونا والا بنام حکومت ہند اور دیگر (2018)’کیس کا بھی حوالہ دیا گیاہے ، جس میں عدالت عظمیٰ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بڑھتے ہوئے ہجومی تشدد کو حکومتوں کو سخت کارروائی کرکے روکنا ہوگا۔ عدم رواداری اور ہجومی تشدد کے واقعات کے ذریعے ظاہر ہونے والے بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کو ملک میں معمول کی زندگی یا امن و امان کے معمولات بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے ۔
درخواست میں اکتوبر 2022 اور اپریل 2023 میں جاری کردہ عدالت عظمیٰ کی ہدایات کا بھیذکر کیا گیا، جس میں نفرت انگیز تقاریر کے جرائم سے متعلق مقدمات میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے فوری از خود کارروائی کے حکم کو ضروری کیا گیا تھا۔ حکم نامے میں واضح کیا گیا کہ ایسی کاروائی تقریر کرنے یا اس طرح کی حرکت کرنے والے شخص کے مذہب کی پرواہ کئے بغیر کی جائے گی، تاکہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھا جا سکے جیسا کہ دستور کی تمہید میں تصور کیا گیا ہے ۔