کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اے کاش ایسا ہوتا اور ویسا نہ ہوتا۔ اس اے کا ش کا تعلق کشمیرکے سیاسی، انتظامی، معاشرتی ، معاشی اور زندگی کے کچھ دوسرے اہم اور حساس پہلوئوں سے ہے۔ لیکن کیا کیجئے، کشمیرنشین سیاستدانوں کے جتنے بھی قبیلے اور کعبے ہیں ان سب کی سوچ، اساس اور ایجنڈا ابن الوقتی ، اندھے سیاسی مفادات کی تکمیل، مختلف معاملات کے حوالہ سے معذرت خواہانہ روش او راپروچ سے ہے نہ کہ اپنے عوام کے مجموعی مفادات اور حقوق کے تحفظ اور حصول سے !
اگر کشمیر کی سرزمین سے جنمے سیاستدانوں کی فوج کے تعلق باالخصوص ان کی فکر اور اپروچ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کی جائے تو یہی بات متفقہ طور سے اُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر یہ فوج مخلص اور عوام پرور ہوتی توگذرے ۷۵؍سال سے کشمیر اورکشمیری عوام سیاسی یا غیر سیاسی پہلو کے تعلق سے کسی بھی تکلیف میں نہ ہوتی بلکہ منظرنامہ کچھ اور ہوتا۔ اس فکر اور اپروچ کا تجزیہ کرنے بیٹھ جائیں تو اُس درد کا مداوا ہونے کی بجائے ان کی ٹیس ایک نئے درد کا باعث بن سکتی ہے۔
بہرحال اس امر پر اتفاق ہے کہ کشمیر نشین سیاستدانوں کے بیک وقت کئی چہرے ہیں۔ یہ کبھی اپنا ئیت کا احساس جگا کر ہمدردیاں سمیٹ لیتے ہیں تو کبھی گمراہ کن نعرے اور بیانات کا سہارا لے کر لوگوں کو ذہنی انتشار اور خلفشار میں بھی مبتلا کردیتے ہیں۔ مثالیں کئی ہیں، کِس کس کا احاطہ کیاجائے۔
ابھی چند روز قبل ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارلیمنٹ میں چند منٹ کی تقریر کے دوران ملک کی حکومتی اور سیاسی قیادت کو مشورہ بھی دیا اور مطالبہ بھی کیا کہ ’مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات کی جائے، فاروق صاحب کے اس مشورہ نما مطالبے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں لیکن ایک بہت بڑا سقم ضرور موجودہے۔وہ سقم کیا ہے ، کس ہیت کا ہے اور کس نوعیت کا ہے قطع نظر اُس کے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے فاروق عبداللہ کا مشورہ نما مطالبہ یہ کہکر مسترد کردیا کہ ’پاکستان یا حریت کے ساتھ نہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بات کی جائیگی‘۔یہ پہلا موقعہ نہیں کہ جب فاروق عبداللہ نے پاکستان کے ساتھ بات کرنے یا مرکزی وزیرداخلہ کی جانب سے پاکستان یا حریت کے ساتھ نہیں بلکہ کشمیر نوجوانوں کے ساتھ بات کرنے کا اعلان کیا ہو ظاہر ہے جب مرکزکا مذاکرات کی ہیت کے حوالہ سے نظریہ ، اپروچ اور موقف واضح ہو تو تقاضہ یہی بنتا ہے کہ مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے دوسرے قابل قبول اور قابل عمل آپشن ہاتھ میں لئے جائیں۔
دوسرے اور قابل عمل آپشن یہ ہیں کہ کشمیر یا جموں کے حوالوں سے جتنے بھی معاملات اور مسائل درپیش ہیں ان کا حل مرکز کے ہاتھ میں ہے ۔ ہمسایوں کے ساتھ بات کرکے وہ مسائل یامعاملات کیسے حل ہوسکتے ہیں۔ ان کاحل تلاش کرنے کیلئے بات مرکز اور مرکزی قیادت کے ساتھ وقت کا بھی تقاضہ ہے او رناگزیر بھی ہے۔ اس ضرورت کی طرف بار بار انہی کا لموں میں کشمیر کی قیادت کے دعویداروں کو مشورہ دیاجاتا رہا کہ وہ اِدھر اُدھر دیکھنے اور ہاتھ پیر مارنے کی بجائے مرکزی قیادت کے ساتھ رجو ع کرے اور جو بھی معاملات اور مطالبات ہیں ان پر بات کی جائے۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قیادت کے وہ دعویدار جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وقت اقتدار پر رہے یا اقتدار سے وابستہ رہے نے اس حوالہ کوبھی اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق ٹریٹ کیا۔ کشمیرکے وسیع تر مفادات کو حاشیہ پرکھتے ہوئے قیادت کے کچھ دعویدار اپوزیشن اتحاد کا حصہ بن گئے ہیں۔ ملکی سطح پر اپوزیشن کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے جس ایجنڈا کا بادی النظرمیں جموںیا کشمیر کی کسی بھی ایک اکائی کا کوئی بھی مفاد وابستہ نہیں لیکن اس کے باوجود اتحاد میں شمولیت اور اپوزیشن ایجنڈا کی بولی ہی بولی جارہی ہے۔
یہ پہلا موقعہ ہے یا اسے اتفاق ہی قرار دیاجاسکتا ہے کہ اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے بھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر کو دہلی سے بات کرائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ سید الطاف بخاری کے اس مشورہ کاخیر مقدم کرنا چاہئے کہ ان کو بھی یہ احساس ہوا کہ بات سرحدوں سے دور نکل کرنہیں بلکہ سرحد کے اندر دہلی کے ساتھ ہی بہتر اور دانشمندانہ راستہ ہے۔ اگر چہ الطاف بخاری جو وقفے وقفے سے دہلی کے ساتھ درپیش معاملات اور مسائل پربات کرکے ان کی توجہ مبذول کرتے رہتے ہیں البتہ خیرت کا مقام تو یہ ہے کہ کشمیرنشین دوسری سیاسی پارٹیاں اس راستے پر گامزن نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے اور اُس ایجنڈا پر چلتے ان کے اپنے مقاصد تو پایہ تکمیل تک توپہنچ پارہے ہوں لیکن بحیثیت مجموعی عوام کا کوئی مسئلہ ایڈریس نہیں ہورہاہے۔
اس کے برعکس معاملات اُلٹ چل رہے ہیں ۔ سیاسی قیادت کے دعویدار ایک دوسرے کی ٹانگین کھینچے میں مصروف ہیں۔ پارٹیوں کا یہ طرزعمل لوگوں کو ان سے متنفر بھی کررہا ہے اور ان سے دوری کا بھی موجب بن رہاہے۔بہرحال اب جبکہ سیدالطاف بخاری نے ڈاکٹر فاروق کو یہ مشورہ دیا ہے تو کیا خودبخاری صاحب پہل کرکے کشمیرنشین پارٹیوں کو دعوت دے کر ایک پلیٹ فورم پر جمع نہیں کرسکتے۔وہ پارٹیوں کو دعوت دیں اور کم سے کم پروگرام اور ایجنڈا واضح کرکے مرکزی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیلئے رجوع کریں مرکزی قیادت ایسی کسی بھی کوشش اور پہل کا یقیناً خیر مقدم کرے گی کیونکہ بُنیادی طور سے ایسی کوئی پہل جموں وکشمیر اور نہ ہی ملک کے کسی وسیع ترمفاد کے منافی ہے۔
معاملہ جموں کا ہوں یا کشمیر سے تعلق رکھتاہو، اس کو کسی بھی حوالہ سے انانیت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے۔ معاملات او رمشکلات کا تعلق عوام سے ہے اور ظاہر ہے اگر سیاسی سطح پر قیادت کے دعویدار اس سمت میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کوئی پہل کرتے ہیںتو عوام کی طرف سے ایسی کسی بھی پہل کا والہانہ خیر مقدم ہی کیا جائیگا۔