نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ اکتوبر۱۹۴۷ میں سابق شاہی ریاست کے الحاق کے بعد جموں کشمیر کی خودمختاری کو ہندوستان کے حوالے کرنا’بالکل مکمل‘ تھا، اور یہ کہنا ’واقعی مشکل‘ہے کہ آئین کی دفعہ ۳۷۰‘ جس میں سابقہ ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل تھی‘ فطرت میں مستقل تھی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ ایک بار جب آئین کا آرٹیکل ایک(ون) کہتا ہے کہ ہندوستان جموں اور کشمیر سمیت ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، خود مختاری کی منتقلی ہر لحاظ سے مکمل تھی۔
ہندوستانی آئین کے شیڈول ایک میں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی فہرست اور ان کی حد اور علاقائی دائرہ اختیار اور جموں و کشمیر کے اعداد و شمار اس فہرست میں شامل ہیں۔
بنچ، جس میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت بھی شامل تھے، نے مشاہدہ کیا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جموں و کشمیر میں خودمختاری کے کچھ جزیات کو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد برقرار رکھا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو دفعہ ۳۷۰کی منسوخی کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت کے دوران مشاہدہ کیا کہ ’’جموں اور کشمیر کی خودمختاری مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کر دی گئی ہے اور آئین میں مختلف پہلوؤں کی موجودگی کے باوجود یونین (آف انڈیا) کی خودمختاری اور سالمیت متاثر نہیں ہوتی ہے‘‘۔
سپریم کورٹ نے زبانی طور پر یہ بھی ریمارکس دیئے کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں، سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی آرٹیکل۳۷۰کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
بنچ نے عرضی گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ کو بتایا کہ ’’آئین کا آرٹیکل ایک کہتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا اتحاد ہے اور اس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے، اور اس لحاظ سے (ہندوستان کی) خودمختاری مکمل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا’’ہندوستان کے ساتھ خودمختاری کی کوئی بھی مشروط خودسپردگی نہیں۔ خودمختاری صحیح معنوں میں ہندوستان کے یونین کے ساتھ متصل ہو جانے کے بعد صرف قانون سازی کے لیے پابندی کا اطلاق باقی رہتا ہے، جو پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ چند پابندیاں جو باقی رہ جاتی ہیں۔‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ۱۹۷۲ کی آئینی درخواست کے آرڈر میں ایک بہت ہی دلچسپ شق ہے، جو ۱۹۷۲ میں آئی، جب آرٹیکل۲۴۸ میں ریاست جموں و کشمیر کے حوالہ سے ترمیم کی گئی تھی اور۲۴۸ متبادل بنا (دیگر تمام ریاستوں کو قانون سازی کے اختیارات فراہم کرنے میں)۔
چیف جسٹس نے کہا، ’’اب اس (آرٹیکل) کی رو سے پارلیمنٹ کو ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مسترد کرنے‘ اس کی سالمیت پر سوال اٹھانے یا اس میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے کوئی بھی قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔ لہٰذا۱۹۷۲ کا حکم یہ بناتا ہے کہ… اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خودمختاری صرف یونین آف انڈیا کو حاصل ہے۔ اس لیے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن (۱۹۴۷) کے بعد خودمختاری کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔‘‘
بنچ نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۸؍ اب بھی لاگو ہے، جیسا کہ یہ۵؍اگست۲۰۱۹ سے پہلے جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا تھا اور اس میں ہندوستان کی خودمختاری کی بالکل واضح قبولیت شامل ہے۔
جسٹس کھنہ نے شاہ سے استفسار کیا ’’کون سا آئین برتر ہے، ہندوستان کا (یا جموں و کشمیر کاآئین)؟‘‘ شاہ نے جواب دیا، ’’یقینا، ہندوستانی آئین۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے سپریم کورٹ میں دفعہ۳۷۰کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی جو جمعرات کو بھی جاری رہی۔
جمعرات کو جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے اپنے دلائل سپریم کورٹ میں بیان کیے۔قبل ازیں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بھی اپنے اعتراضات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔
قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست ۲۰۱۹کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون پارلیمنٹ میں پاس کرکے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کر دیا۔ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی تنظیموں نے اس کی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کیں۔ قریب چار برس تک اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے دو اگست۲۰۲۳سے سبھی عرضیوں کی سماعت کا آغاز کیا۔