نئی دہلی//
معروف ماہر اقتصادیات و مبصر ‘مارٹن وولف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ مغربی قائدین ہندوستان کے سلسلے میں سنجیدہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان دراصل ممکنہ طور پر ایک ابھرتی ہوئی عظیم قوت بن جانے کے امکانات کا حامل ملک ہے اور اس کی معیشت ۲۰۰۵تک امریکہ کی معیشت کے حجم کے مساوی ہو جائے گی۔
وولف نے فائننشل ٹائمز میں تحریر کردہ ایک کالم میں کہا ہے ’’ میرا نظریہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ایک سال میں یا اس سے بھی آگے فی کس۵فیصد کے بقدر جی ڈی پی نمو برقرار رہنے کا اہل ہونا چاہئے اور یہ سلسلہ ۲۰۵۰تک جاری رہنا چاہئے ۔ بہتر پالیسیوں‘ نمو کے ساتھ یا اس سے بھی زیادہ ترقی کر سکتا ہے ۔ اگرچہ یہ نسبتاً کم ہو سکتی ہے ‘‘۔
ماہر اقتصادیات نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ ہندوستان چائنا پلس ون حکمت عملی پر عمل کرنے والی کمپنیوں کیلئے ایک واضح مقام ہے ، اور ایک بڑی گھریلو منڈی کے واضح مسابقت کاروں پر بالادستی کا حامل ملک ہے ۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں وسیع تر معیشت ہے اور قوت خرید کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت ہے ۔ اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ اس ملک کی آبادی۲۰۵۰تک ایک ارب۶۷کروڑ تک پہنچ جائیگی اور فی الحال یہ تقریبا ایک ارب۴۳کروڑ ہے ۔
وولف نے زور دے کر کہا ہے کہ ملک کی بینک بیلنس شیٹوں کو ٹھیک کر لیا گیا ہے اور مجموعی طور پر قرض انجن ایک مرتبہ پھر اچھی حالت میں آگیا ہے ۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس ملک کی آبادی اور معیشت کے بارے میں تیز رفتار نمو آئندہ دہائیوں میں وقوع پذیر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے ، جو چین کے مدمقابل ہوگی اور اسے پیچھے چھوڑ دے گی‘ وولف نے کہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مغربی ممالک کے قریبی تعلقات نیک شگون ہیں۔
ماہر اقتصادیات کے مطابق’’کسی زمانے میں پابندی کا شکار نریندر مودی کے ساتھ جو بائیڈن کا گرمجوشانہ معانقہ اس کا غماز ہے کیونکہ اب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ واشنگٹن نے اور پیرس میں اسی گرمجوشی کے ساتھ ایمانوئل میخواں نے جس طرح ان سے معانقہ کیا اس سے اس ملک کے ساتھ ان کے قریب ہوتے ہوئے تعلقات کے مقصد کا اظہار ہوتا ہے جو چین کو اثر و رسوخ کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دے گا‘‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ کیا یہ مغربی قوتوں کیلئے اچھی پیش گوئی ہے ؟ ہاں، ہندوستان دراصل ایک ابھرتی ہوئی عظیم قوت بن جانے کے امکان کا حامل ملک ہے ۔ مفادات بھی ایک دوسرے کوآپس میں وابستہ کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک اقدار کا سوال ہے اور انہیں ساجھا کرنے کی بات ہے ، وہ ایک زیادہ کھلا ہوا سوال ہے ۔
وولف نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے۲۰۲۳سے لے کر۲۰۲۸کے درمیان۶فیصد سے تھوڑا زائد کی سالانہ نمو کی پیش گوئی کی ہے اور فی کس جی ڈی پی نمو موٹے طور پر ایک فیصد مزید تخفیف کی حامل ہوگی۔ اس طرح کی نمو گذشتہ تین دہائیوں کے اوسطوں کے قریب ہوگی، شرط یہ ہے کہ ملک بڑے عالمی یاگھریلو صدموں سے دوچار نہ ہو۔ یہ کلی طور پر عملی محسوس ہوتا ہے ، یہاں تک کہ قابل ستائش بھی۔
ماہر اقتصادیات نے یہ بھی کہا کہ اس ملک کے پاس ابھی مواقع سے استفادہ کرنے کے بڑے امکانات موجود ہیں۔یہ ایک نوجوان ملک بھی ہے ، مجموعی طور پر ناکافی لیبر فورس کے ساتھ، اس لیبر فورس کی عمدگی کو بہتر بنانے کے امکانات اور مضمرات موجود ہیں ۔
مزید برآں ، وولف نے کہا کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر تطبیق درکار ہوگی، شرط یہ ہے کہ عالمی اخراج کے معاملے میں جو ناکامی ہوئی ہے اسے کم کیا جائے ۔ تاہم توانائی تغیر بھی ہندوستان کو وسیع تر مواقع فراہم کرتا ہے ۔
۲۰۵۰تک‘ہندوستان کی جی ڈی پی فی کس (قوت خرید کی بنیاد پر)امریکی سطحوں کے مقابلے میں تقریباً ۳۰ فیصد کے بقدر ہو جائے گی۔ موٹے طور پر جہاں آج چین موجود ہے ، وولف نے اس تصور کو بنیاد بناکر کہا کہ ملک کی جی ڈی پی فی کس اب بھی ایک سال میں۵فیصد کی نمو کے لحاظ سے جاری ہے جبکہ امریکہ۴ء۱فیصد کی نمو کا حامل ملک ہے ۔ اقوام متحدہ کی پیش گوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے وولف نے کہا کہ بھارت کی آبادی امریکہ کے مقابلے میں۴ء۴گنا زیادہ ہوگی۔
وولف نے کہا ’’ اس لیے اس کی معیشت امریکہ کے مقابلے میں۳۰فیصد سے کہیں زیادہ ہوگی۔ مختصر طور پر یہ بات تصور کرنا واجب ہے کہ ہندوستان ایک عظیم قوت بن جائے گا۔ یہ بات تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس کی معیشت۲۰۵۰تک امریکہ کی معیشت کے مماثل حجم کی معیشت بن جائے گی۔ اس طرح سے مغربی قائدین ہندوستان کے ساتھ اپنے مفادات کے لحاظ سے روابط قائم کر رہے ہیں اور سنجیدہ پیش گوئی کر رہے ہیں‘‘۔
بدھ کے روز عالمی بینک کے صدر اجے بانگا جو فی الوقت ہندوستان کے دورے پر ہیں، نے کہا کہ گھریلو کھپت ملک کی معیشت کو عالمی مندی کے بالمقابل ایک فطری دفاع فراہم کرتی ہے کیونکہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ مقامی مانگ پر منحصر ہوتا ہے ۔