جس ملک کے سیاستدان اپنے ہی ملک کے تئیں وفادار نہ ہوں، جس سیاست کی بُنیاد اور مطمع نظریہ کورپشن، لوٹ، بندر بانٹ، بدعنوانیوں ، استحصال، مارل کورپشن ،ا نتقام گیری، جلائو گھیرائو، دہشت گردی سے عبارت اپروچ سے ہو اُس ملک کے حالات واقعات پر اظہار افسوس اور اظہار تشویش کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے کچھ معاملات کے حوالہ سے موازنہ کرنا سیاسی دانشمندی نہیں بلکہ سیاسی جاہلیت ، ناپختہ شعور اور طفلانہ انداز فکر ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔
پاکستان ایک بار پھر اپنی تاریخ کے ایک نازک اور سنگین ترین مرحلہ سے گذررہاہے، اس ملک کو بیک وقت مختلف نوعیت کے بحرانوں کا چیلنج درپیش ہے ، لیکن ملک کی سیاسی قیادت ان چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونے اور کسی سنجیدگی اور ذمہ دارانہ طرزعمل سے کام لینے کی بجائے نہ صرف انتقامی اور بدلے کی سیاسی راہ پر گامزن ہیں بلکہ ملکی آئین اور قوانین کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیرتے ہوئے ہر سیاستدان اپنا اپنا کردار ادا کررہاہے بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں بھی نظرآرہے ہیں۔اس دوڑ میں اس ملک کا بدترین المیہ یہ ہے کہ آرمی، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا، دانشور ، ججوں کی بیگمات، مختلف خیالات اور نظریات کے حامل وکلاء، کاروباری اور دوسرے ادارے بھی مختلف خانوں اور وفاداریوں میں تقسیم ہو کر اپنا اپنا حصہ وصول بھی کررہے ہیں اور کردار بھی اداکررہے ہیں۔
اس مخصوص منظرنامہ پر کشمیر نشین کچھ سیاستدان جب تبصرہ کرنے یا ردعمل کا اظہار کرتے نظرآرہے ہیں تو ان کا یہ ردعمل کچھ اس انداز کا محسوس ہورہاہے کہ جیسے یہ سیاستدان سیاسی بصیرت، سیاسی عقل وشعور اور سیاسی فہم و ادراک سے عاری ہیں اور ہمسایہ ملک کے حالات اور اُس ملک کی سیاسی قیادت کے مزاج، سیاسی نظریات، کردار وعمل کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں۔اس حوالہ سے پی ڈی پی صدر جو وزیر اعلیٰ بھی رہی ہیں کا حالیہ ردعمل بطور نمونہ اور مثال کے پیش کیاجاسکتا ہے۔ اگر محبوبہ جی کو اصل اور زمینی حالات ومعاملات کا فہم نہیں تو محض تنقید برائے تنقید ، مخالفت برائے مخالفت، سیاسی انانیت برائے بدنیتی کے جذبہ سے سرشار ہوکر تبصرہ یا ردعمل کو زبان نہیںدینی چاہئے تھی۔
جس ملک کا سابق وزیراعظم گلا پھاڑ پھاڑکر چلارہا ہو کہ ’مجھے اقتدار سے کیوں نکالا‘ آرمی سے قدم قدم پر مطالبہ کرتا ہو کہ مجھے اقتدار واپس دلائو، اپنے مخالف سیاستدانوں کو قدم قدم پر چور اور لٹیرا قرار دے رہا ہو، اپنے حامیوں جوا ب نفسیاتی اور نظریاتی اعتبار سے ایک ’’کلٹCult‘‘ کی مانند جلوہ گر ہوں کو جلائو، گھیرائو، قتل اور مار و کے لئے کہہ رہا ہو اور جس کا اب عملی ثبوت اور مظاہرہ اس کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر واضح طور سے نظرآرہا ہے کے بارے میں محبوبہ جی کا یہ اظہارماتم کہ اس کے پیچھے اسی طرح سے ایجنسیوں کو لگایا گیا ہے جس طرح ہندوستان میں مودی سرکار اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کررہی ہے نہ صرف احمقانہ اور بدبختانہ ہے بلکہ شرمناک بھی ہے اور حد درجہ قابل اعتراض بھی!
بہرحال اب جبکہ محبوبہ جی نے موازنہ کرہی لیا ہے تو ان چند واقعات کے حوالہ سے کریں تاکہ ان کی اپنی قیادت میں پی ڈی پی کی دوسری صف کی قیادت اور اس پارٹی کے حامیوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ان کی لیڈر جو کچھ موازنہ کے طورپیش کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ کس حد اور قدر تک بچگانہ ہے۔
یا دکیجئے، اس وقت کے وزیرداخلہ کے ہمراہ پر یس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ جی سے سوال کیاگیا کہ غیر مسلح احتجاج پر آمادہ شہریوں پر فائرنگ کی جارہی ہے اور پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کرکے شہریوں کو اندھا اور جسمانی طور سے معذور بنایا جارہاہے تو محبوبہ جی کا جواب کیا یہ نہیںتھا کہ ’’یہ لوگ اپنے گھروں سے دودھ اور مٹھائیاں خریدنے کیلئے نہیں نکلتے ہیں‘‘۔یہ اقتدار کا نشہ تھا، اقتدار کی بدقسمتی تھی ، گھمنڈ تھا۔ اب موازنہ کریں پاکستان کا !عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں اس کے حامیوں نے پارٹی لیڈر شپ کی کال پر آرمی کی تنصیبات، پولیس اسٹیشنوں، ایمبولنس گاڑیوں، نجی کاروں اور گاڑیوں، ریڈ یو پاکستان ، مساجد، نجی املاک اور اثاثوں ، کو نہ صرف آگ لگادی، بلکہ آگ لگانے سے پہلے رہائشی کوارٹروں میں ریفریجریٹروں سے قورمے، سٹابری، آیس کریم وغیرہ شکم میں اُتا ر ے، ان کی ویڈیوز بنائی اور گھروں میں موجود قیمتی اثاثوں پرہاتھ صاف کرکے اپنے گھروں کی زینت بنالیا لیکن نہ پولیس اور نہ ہی آرمی نے گولی چلائی، آپ بندوق ہاتھ میں لے کر گولیاں چلاتے کسی پولیس اسٹیشن یا آرمی ہائوس پر حملہ آورہوں خود پاکستانی قوانین کے مطابق یہ صریح دہشت گردی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی گولی نہ چلانا کیا اس کا کوئی موازنہ ممکن ہے یا کیا جاسکتا ہے؟ بادی النظرمیں نہیں۔
البتہ کچھ سیاستدانوں کی اس آراء سے اتفاق کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے کہ غیر مستحکم پاکستان کشمیر کی سرحدوں اور بحیثیت مجموعی ملک کے لئے ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہ سیاستدان اس تلخ سچ کو نظرانداز کررہے ہیں کہ عمران خان طالبان کا حامی ہے، اپنے دور اقتدار کے دوران ان کی مالی معاونت کرتا رہا ہے، زائد از چالیس ہزار مسلح طالبان کو افغانستان سے واپس بلاکر پاکستان میں انہیں بسانے کا کردار اداکرچکاہے اور پھر دعویٰ بھی کرتا رہا ہے کہ وہ واحد پاکستانی لیڈر ہے جو طالبان کے مزاج، رہن سہن ، ان کی سوچ اور نظریات کو اچھی طرح سے علمیت رکھتا ہے۔
اللہ نہ کرے عمران پھر اقتدار میں آجائے تو یہی طالبان جو اس وقت بھی ان کی گرفتاری کی آڑ میں اداروں پر فائرنگ کرنے میںملوث جتائے جارہے ہیں کو کشمیر کی طرف رُخ کرنے کی تحریک دی جاسکتی ہے بلکہ ان کی دراندازی کی حوصلہ افزائی بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر چہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ پاکستانی طالبان کا افغانی طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن یہ سو فیصد درست نہیںہے۔
محبوبہ جی کو یہی مخلصانہ مشورہ دیا جاسکتاہے کہ وہ پاکستان اور پاکستان کی غلاظت اور کثافت سے بھری سیاست پر توجہ مبذول کرنے کی بجائے جموںوکشمیر اور اس کے عوام پر توجہ مبذول کرے اور اگر وہ واقعی اب مخلص ہے تو عوام کے وسیع تر مفادات میںکوئی مثبت کردارادا کرنے کا راستہ اختیار کرے۔ عوام کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں کہ ان کے والد مرحوم کا مشن اور وژن مفروضوں اور سب سے بڑھ کر ذاتی مفادات سے عبارت تھا جسے وقت نے از خود غلط ثابت کردیا۔