سرینگر/۱۷؍اپریل
وادی کشمیر میں ماہ مبارک رمضان کے بیچ جہاں سحری اور افطار کے وقت بجلی کی آنکھ مچولی نے لوگوں کا جینا دو بھر کر کے رکھ دیا ہے وہیں بازاروں میں اشیائے ضرورویہ بالخصوص اشیائے خوردنی کی مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ وادی کے بازاروں میں اشیائے ضروریہ خاص طور پرسبزیوں اور پھل کی گراں بازاری عروج پر ہے جبکہ متعلقہ حکام ہاتھوں پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
لوگوں نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان کے دوران سحری اور افطار کے وقت بجلی غائب ہوجاتی ہے جس سے روزہ داروں کو گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا رہا ہے ۔
جمیل احمد نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ بازاروں میں سبزی فروش لوگوں کو دو دو ہاتھوں لوٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سبزیوں کو سونے کے بھاوبیچا جا رہا ہے جبکہ متعلقہ حکام کوئی کارروائی انجام نہیں دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں میں سبزیوں، مرغ اور پھل کو الگ الگ قیمتوں پر فروخت کیا جا رہا ہے ۔
فیاض احمد کا کہنا تھا کہ مرغ ایک علاقے میں ۱۵۰روپے فی کلو جبکہ دوسرے علاقے میں۱۷۰فی کلو بیچا جا رہا ہے اور یہی حال سبزیوں کا بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ٹماٹر۵۰روپے فی کلو، پالک۴۰روپے فی کلو، مٹر۸۰روپے فی کلو کے حساب سے بیچے جا رہے ہیں۔
ارشاد احمد نامی ایک شہری نے بتایا کہ بازاروں میں گراں فروشی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے متعلقہ محکمے کی طرف سے کوئی ریٹ لسٹ دستیاب ہے نہ ہی چیکنگ اسکوارڈس کو متحرک کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دکاندار لوگوں سے منہ مانگی قیمتوں پر اشیائے خوردنی فروخت کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے جب گراں فروشی کی شکایت متعلقہ حکام تک پہنچائی تو انہوں نے کارروائی کرنے کی بجائے بے بسی ہی ظاہر کی۔
تابش حسین نامی ایک شہری نے بتایا کہ وادی میں جہاں بازاروں میں گرم بازاری عروج پر ہے وہیں بجلی کی آنکھ مچولی نے بھی لوگوں کا جینا دو بھر کر کے رکھ دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سحری اور افطار کے وقت بجلی غائب ہوتی ہے جو روزہ داروں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نماز تراویح و نماز فجرکی ادائیگی کے لئے مسجد جانا مشکل بن گیا ہے ۔
دریں ثنا شہر خاص کے متعدد علاقوں کے لوگوں نے شکایت درج کی ہے کہ پینے کے پانی کی قلت کے باعث وہ ذہنی کوفت کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے ایک ہفتے سے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور اگر اس بارے اعلیٰ حکام کو بھی آگاہ کیا جاتا ہے تاہم حکام کی جانب سے کوئی معقول جواب نہیں مل پا رہا ہے ۔