تو صاحب ۳مئی بدھ کو آزادیٔ صحافت کا دن منایا گیا…کشمیر میں نہیں منایا گیا‘ پوری دنیا میں منایا گیا… کشمیر میں چونکہ اب صحافت نہیں ہے‘صحافت نہیں رہی ہے‘اس لئے کشمیر میں یہ دن نہیں منایا گیا… یہ دن کشمیر میں خاموشی سے گزر گیا اور…اور اپنے ایل جی صاحب نے بھی اس دن کے حوالے سے خاموشی ہی اختیار کی… اور اس لئے کی کہ شاید انہیں بھی اندر کی … کشمیر میں صحافت کی اندر کی بات معلوم ہے… اس لئے انہوں نے ایک عدد ٹویٹ تک نہیں کیا… بالکل بھی نہیں کیا ۔ہاں آپ پوچھ سکتے ہیں کہ… کہ کشمیر میں اگر صحافت نہیں رہی تو… تو پھر اخبار کیوں چھپ رہے ہیں‘ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں چھپ رہے ہیں تو… تو صاحب اس کا ایک آسان سا جواب ہے کہ … کہ اخبار والوں کا بھی پیٹ ہے… بس پیٹ پالنے کیلئے چھپ رہے ہیں… لیکن صرف اخبار چھاپنے سے پیٹ پالا نہیں جا سکتا ہے… رکئے آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیے کہ اخبار سے پیٹ پالا جا سکتا ہے …نہیں ایسا نہیں ہے …اور بالکل بھی نہیں ہے ۔مختصر یہ کہ آپ بغیر کسی خوف تردید کے کشمیر کی صحافت کیلئے انا للہ… پڑھ سکتے ہیں۔اس سے زیادہ ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے ہیں… بالکل بھی نہیں کہنا چاہتے ہیں سوائے اس ایک بات کے کہ… کہ ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے… اور تیزی سے ہو رہا ہے جن پر اپنے ملک میں میڈیا کا ‘صحافت کا ‘صحافیوں کا گلا گھونٹنے کا الزام ہے… آزادیٔ صحافت دبانے کا الزام ہے… ایسے ممالک کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے…اور اس سے اگر کوئی بات سامنے آجاتی ہے‘ اگر کوئی نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے تو… تو وہ یہ ہے کہ… کہ فیس بک صحافت کے دور میں بھی روایتی صحافت ہی قابل اعتبار سمجھی جارہی ہے… اسی کو سنجیدہ لیا جارہا ہے… حکمران اسے ہی اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں… اگر ایسا نہیں ہوتا تو… تو پھر روایتی صحافت کو دبانے کی کوششیں کیوں ہو تیں …آزادیٔ صحافت پرحملے آئے روز بڑھ کیوں جاتے؟… بڑھ اس لئے رہے ہیں کیوںکہ لوگوں… بیشتر لوگوںکی نظروں میں آج بھی فیس بک صحافت کے بجائے روایتی صحافت کو ہی قابل بھروسہ تصور کیا جاتا ہے… اسی کو حرف آخر سمجھا جارہا ہے اور… اور اسی لئے اسی پر سب سے زیادہ قدغنیں بھی ہیں… اور یہ بات …خیر چھوڑ دیجئے اس سے آگے کہنے کی ضرورت نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟