ماہ صیام کو رخصت ہو ئے ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور… اور رمضان نمازیوں کو بھی مساجد سے رخصت ہو ئے اتنا ہی عرصہ ہو گیا ہے… آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب کشمیر کی مساجد میں معمول کے حالات بحال ہو گئے ہیں… اور …اور ایک ماہ تک مساجد میں جن غیر معمولی حالات کا سامنا ہے‘ان پر کنٹرول پا لیا گیا ہے…چونکہ حالات معمول پر آگئے ہیں‘ اس لئے مساجد میں نافذ ایمر جنسی بھی اٹھا لی گئی ہے اور… اور اللہ میاں کے گھر کے گھر والوں کو مساجد میں پھر سے پہلی والی صفو ں میں جگہ ملنا شروع ہو گیا ہے… وہ کیا ہے کہ رمضان میں اللہ میاں کے گھر کے گھر والوں ‘ مستقل رہائشیوں کو گھر کے اندر نہیں بلکہ باہر دور کہیں کسی کونے میں جگہ ملتی تھی… لیکن اللہ میاں کا شکر اور احسان ہے کہ … کہ اب انہیں واپس اپنی جگہ مل گئی ہے ۔ رمضان کے بعد ہماری مساجد کی صوتحال پر کسی نے کہا ہے کہ ایک ماہ تک مساجد میں مہمان تھے … مہمان زیادہ دیر تک کسی کے گھر میں نہیں رہتے ہیں… اللہ میاں کے گھر میں بھی نہیں ‘ اس لئے رمضان کے جاتے ہی مہمان بھی اپنے گھروں کو چلے گئے اور… اور اللہ میاں کے گھر میں گھر والے ہیں… یعنی مستقل رہائشی ہیں ۔ہر سال امام صاحبان رمضان میں یہ دعا بار بار کرتے ہیں کہ اے اللہ ہماری مساجد کو سال بھر آباد رکھنا… لیکن… لیکن یہ ایک ایسی دعا ہے جس کو اللہ میاں کے دربار میں قبولیت نہیں مل رہی ہے اور… اور اس لئے نہیںمل رہی ہے کیونکہ ہم نے رمضان کو ٹریننگ کورس کے بجائے ایک امتحان سمجھ لیا ہے… جس طرح امتحان کے ختم ہونے کے ساتھ ہی طلباء خود کو آزاد سمجھتے ہیں… پڑھائی اور محنت و مشقت سے آزاد… اسی طرح ہم بھی رمضان کے جاتے ہی خود کو آزاد سمجھتے ہیں… نمازوں سے آزاد … مساجد سے آزاد۔اگر رمضان کو ہم نے ایک تربیتی پروگرم سمجھ لیا ہوتا… ایسا تربیتی پروگرام جسے سال کے باقی ۱۱ ماہ میں عملانا ہوتا ہے…اس پر چلنا ہو تا ہے تو… تو سال کے باقی مہینوں میں بھی ہماری مساجد آباد ہو تیں… ان میں ایمرجنسی نافذ رہتی…اور… اورسبھی اللہ کے گھر کے گھر والے بن جاتے…کوئی مہمان نہیں رہتا … بالکل بھی نہیں رہتا ۔ ہے نا؟