الیکشن کے حوالہ سے منظرنامہ ابھی واضح نہیں دھند بھی نظرآرہی ہے اور گومگو کی سی صورتحال بھی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی صف سے مایوسی چھلک رہی ہے۔ اگر چہ وہ باہیں کھولے الیکشن کے انعقاد کے اعلان کی منتظر ہیں لیکن باربار یہ گلہ بھی کررہی ہیں کہ آخر کب تک عوام کو اس جمہوری حق سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
بحیثیت مجموعی لوگ بھی مایوس اور برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کبھی بھی اور کسی بھی مرحلہ پر جموں وکشمیر کے تعلق سے سنجیدہ نہیں رہا۔ کمیشن عمو ماً سیاسی مصلحتوں کا مطیع رہا ہے۔ اور اب کی بار بھی کمیشن سیاسی مصلحتوں سے کام لے رہا ہے۔ اگر چہ کمیشن نے تمام ۹۰؍ اسمبلی حلقوں کیلئے اسسٹنٹ الیکٹورل رجسٹریشن آفیسروں کو نامزد کردیا ہے جبکہ فہرست رائے دہندہ پر نظرثانی اور تشہیر کیلئے ۲۷؍مئی کی تاریخ مقرر کی ہے لیکن اصل الیکشن کب ہوگا اس بارے میں زرہ بھر بھی عندیہ نہیں۔
عام تاثر جو گڑھ رہا ہے یہ ہے کہ جموںوکشمیر میںاسمبلی الیکشن پورے ملک میں اگلے سال مئی میں عام لوک سبھا انتخابات کے بعد ہوسکتے ہیں اس سے قبل نہیں۔ اس تعلق سے یہ چرچے زبان زدہ عام ہیں کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر میںاس مدت کے دوران مزید کچھ نئی سیاسی جماعتوں کو وجود بخشنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس سمت میں پہلے سے موجود کچھ روایتی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کچھ دیرینہ چہروں کو ان سے کاٹ کر ان چند نئی پارٹیوں کو کچھ اس طرح سے وجود بخشنے کی سعی کی جاسکتی ہے تاکہ یہ کشمیر کے چند ایک اسمبلی حلقوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی راہیں استوار کرسکیں۔
یہ ضروری نہیں سمجھا جارہاہے کہ نئی پارٹیاں کشمیر کے حوالہ سے ہمہ گیر ہوں البتہ کم سے کم دس بارہ اسمبلی حلقوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی سمت میں بخوبی کردارادا کر نے کا اثرورسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اس تعلق سے کہا جارہاہے کہ جموں کی ۴۳؍ اور کشمیر کی ۴۷؍ اسمبلی حلقوں میں عوام کے رجحانات کا پتہ لگانے کیلئے ایک خفیہ سروے کرایاگیا ہے جبکہ سروے کا دوسرا مرحلہ آنیوالے دنوں میں متوقع ہے۔ کشمیرکے حوالہ سے سروے کچھ حلقوں کیلئے مایوس کن کہاجارہاہے چنانچہ اسی کو بُنیاد بناکر یا ملحوظ خاطر رکھ کر چند ایک نئی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کی تجویز اُبھر کرسامنے آئی ہے جنکی تشکیل کی سمت میں اندرون خانے جوڑ توڑ کاسلسلہ جاری ہے۔
الیکشن عمل میںحصہ داری اور سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے بالادستی کا حصول ہر سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر شپ کا پہلا ٹارگٹ بلکہ اصول مانا جارہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے، کوئی ایسا پینترا بروئے کار لایاجائے اور ایسے نعرے تخلیق کئے جائیں کہ عوام کی توجہ ان کی طرف مرکوزرہے تاکہ ان حوالوں سے جو جذبات پیدا ہورہے ہیں انہیں اپنے حق میں ووٹ بینک کی صورت میںحاصل کرلیاجائے۔بھلے ہی بلند کئے جارہے خوش نما نعرے اور پینترے حصول اقتدار کے بعد کسی شمشان گھاٹ یا کسی قبرستان کی ہی نذر کیوں نہ ہوجائیں، سیاسی لیڈروں اور انکی سیاسی پارٹیوں کو غرض صرف اقتدار اور اقتدار کی وساطت سے لذتوں اور عیش رانیوں تک ہی محدود رہ جاتا ہے۔ کشمیر ایسے مشاہدات سے بار بار گذر چکا ہے۔
بہرحال ہر سیاستدان کو یہ آزادی اور حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی باالخصوص اپنے مخصوص نظریات کی مطمع نظر پارٹی کی تشکیل عمل میں لائے۔یہ عوام کی صوابدید ہے کہ وہ کس پارٹی کو اپنے دیرینہ جذبات ، احساسات ، مسائل اور آرزوں کے حوالوں سے اپنے قریب یا ہم آہنگ تصور کرکے اس کو سند قبولیت عطاکرے۔لیکن عموماً مشاہدے میں آیاہے کہ سیاست کے نام پر اس نوعیت کی سیاسی پارٹیوں کا مشروم گروتھ بحیثیت مجموعی حکومت اور عوام کے وسیع تر مفادات کیلئے سم قاتل اور نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔عموماً اس نوعیت اور ہیت کی پارٹیاں ون مین شو ہی ہوتی ہیں جو اپنے اس ون میں شو کے رتبے اور حیثیت کو اپنی چاہتوں اور خواہشوں اور مراعات کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے ہمہ وقت تاک میں رہتی ہیں۔ کشمیر کے ہی حوالہ سے کئی ایک مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جموں وکشمیر میںلوگ اپنی منتخبہ حکومت کی زبردست خواہش رکھتے ہیں اور اس بات کو شدت سے محسوس کیاجارہاہے کہ اپنی منتخبہ حکومت کی عدم موجودگی انہیں درپیش مختلف نوعیت کے معاشی اور معاشرتی مسائل کو شدت عطاکرکے سنگین بنارہے ہیں۔ وہ خود کو اس جمہوری حق سے محروم سمجھ رہے ہیں اور بہت مایوس ہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ بیروکریسی کو ان تک اور انہیں بیروکریسی تک بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی رسائی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام اپنے منتخبہ نمائندوں کے ساتھ رابطہ میںرہتے ہیں اورآسان رسائی بھی رہتی ہے،اس نوعیت کی رسائی ان کے معاملات اور مسائل کے حل اور تکالیف کے ازالہ پر منتج ہوتی ہے۔
معاشی منصوبوں اور فلاحی پروگراموں کی ترتیب وتزین عوام کی مشاورت سے ممکن رہے ہیں جبکہ فی الوقت جو کچھ ہورہاہے ، چاہئے فیصلہ سازی کا مرحلہ ہے یا عمل آوری کا ،سیکریٹریٹ سطح پر عوام کی مشاورت کے بغیر ہورہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل اور معاملات کے حل کیلئے متفکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ الیکشن جلد از جلد ہوں تاکہ وہ اپنے مستند اور معتبر نمائندوں کا انتخاب عمل میںلاسکیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالہ سے فیصلہ کس نے کرنا ہے ؟ الیکشن کمیشن کو یا حکومت کو ؟بے شک الیکشن کمیشن الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے شیڈول کا بگل بجا دیتا ہے لیکن اصل اور بُنیادی سطح پر حتمی فیصلے کا اختیار حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ الیکشن کیلئے درکار سکیورٹی، فنڈز ، افرادی قوت کی دستیابی اور دوسرے بُنیادی لوازمات کی ذمہ داری کا بوجھ حکومت پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کی مختلف ریاستوں میںالیکشن اپنے اپنے مقررہ وقتوں پر بغیر کسی رکاوٹ اور شور وشرکے ممکن ہورہے ہیں تو جموں وکشمیرمیں آخر ایسا کیا مانع ہے جو الیکشن کے انعقاد کی راہ میں حائل ہورہاہے اور جس وجہ سے فیصلہ لینا مشکل ہورہاہے۔