سرینگر//
جموں کشمیر کی ایک عدالت نے منگل کو ایک سابق آئی اے ایس افسر کو ولدیت تنازعہ کیس میں ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی۔
سرینگر کی ایک خاتون نے الزام لگایا ہے کہ سابق آئی اے ایس افسر سدھانشو پانڈے نے اس سے شادی کی اور ان کی شادی کے دوران ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ خاتون نے الزام لگایا کہ بعد میں سابق بیوروکریٹ نے اسے اور بچی کو چھوڑ دیا۔
خاتون نے جلد انصاف حاصل کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سابق آئی اے ایس افسر اپنی بچی کے حیاتیاتی والد ہیں اپنا وکیل تبدیل کر لیا ہے۔
خاتون کے وکیل میر نوید گل نے کہا ہے کہ دوسری ایڈیشنل منصف سرینگر کی عدالت نے تازہ ہدایات جاری کرتے ہوئے مدعا علیہ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کو کہا ہے تاکہ اس کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔
عدالت نے پانڈے سے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر حاضر ہوں اور تحریری طور پر بیان دیں کہ آیا وہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے رضامند ہے اگر عدالت کسی کو یہ ثابت کرنے کا حکم دیتی ہے کہ آیا وہ بچے کا حیاتیاتی باپ ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ درخواست گزار نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ پانڈے نے ان سے ۲۰۱۰ میں مذہب تبدیل کر کے نکاح کیا اور بعد میں سنہ ۲۰۱۱ کے اپریل مہینے کی ۱۲ تاریخ کو انہوں نے بیٹی کو جنم دیا۔ تاہم سنہ۲۰۱۲ کے اکتوبر ماہ میں پانڈے اْن دونوں کو چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ جس کے بعد سنہ ۲۰۱۳ کے اپریل مہینے کی۱۳تاریخ کو درخواست گزار اور اْن کی بیٹی پانڈے کے آبائی گاؤں لکھنوگئے تو پتہ چلا کہ وہ پہلے سے ہی شادی شدہ تھے اور اْن کے دو بچے بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ ہندو مذہب پر قائم و دائم تھے۔ جس کی وجہ سے اْن کا نکاح بے بنیاد قرار دیا گیا۔
خاتون کی جانب سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں بھی ایک عرضی دائر کی گئی تھی، جس میں بچی کی دیکھ بھال کرنے کیلئے معاوضہ کی مانگ کی گئی تھی۔جہاں درخواست گزار اپنے تمام دعوے ثابت کرنے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں رہیں وہیں جواب دہندہ، پانڈے، نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے خاتون پر بلیک میل اور اْن کی عزت اچھالنے کا الزام عاید کیا تھا۔ جس کے بعد ہائی کورٹ نے ۲۷جنوری ۲۰۲۲ کو مشاہدہ کیا کہ نظرثانی کی درخواست قابل سماعت نہیں تھی اس لئے اسے خارج کر دیا جانا چاہیے۔
اس کے باوجود سرینگر کی عدالت میں حق پدری کا معاملہ زیر سماعت ہے اور پانڈے کے ڈی این اے جانچ کیلئے حامی اور پھر جانچ کے بعد عدالت اپنا آخری فیصلہ سنائے گئی۔