نئی دہلی//
جموں کشمیر حد بندی کمیشن کا اپریل کے آخر تک حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق، کمیشن کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد، مرکز جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ مرکز سیکورٹی کے پہلوؤں سمیت تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گا۔
ڈرافٹ رول شائع کیا جائے گا، جس کے بعد ووٹر لسٹ کی’گھر گھر‘ تصدیق کی جائے گی۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ مرکز کل جماعتی میٹنگ کے دوران اس پر بات کرے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ کمیشن نے جموں خطہ میں چھ نئے اسمبلی حلقوں کی تجویز پیش کی ہے جو ادھم پور، راجوری، ڈوڈہ، کٹھوعہ، سانبہ اور کشتواڑ اضلاع سے بنائے جائیں گے۔ اس سے جموں خطہ میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد ۳۷ سے بڑھ کر۴۳ ہو جائے گی۔
اسی طرح، وادی کشمیر میں ایک نئی نشست تجویز کی گئی ہے، جو موجودہ ضلع کپواڑہ سے الگ کی جائے گی، اس طرح کشمیر کے علاقے میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد۴۶ سے بڑھ کر۴۷ ہو جائے گی۔
حد بندی کمیشن کی گزشتہ ماہ کی تجاویز نے جموں خطہ میں بھی ناراضگی کو جنم دیا تھا۔ سچیت گڑھ اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کی پوری اکائی نے کمیشن کی طرف سے اسمبلی کو آر ایس پورہ حلقہ کے ساتھ ضم کرنے کی تجویز کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا، جس سے کمیشن کو اپنی تجویز سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
ایک سینئر عہدیدار نے کہا ’’یہ ایک محفوظ حلقہ ہے، اس لیے لوگوں میں کافی غصہ ہے۔‘‘نئے انتخابی نقشے کے خلاف راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ اور رامبن اضلاع کے کچھ حصوں میں بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے، جس میں اہم تبدیلیاں شامل ہیں۔
خیال رہے حد بندی کمیشن نے حال ہی میں جموں وکشمیر کا دورہ کر کے دونوں صوبوں میںلوگوں کے اآراء اور اعتراضات سنے تھے ۔
کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کی سابق جسٹس رنجنا دیسائی کر رہی ہیں، اور اس میں چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا اور ریاستی الیکشن کمشنر کے کے شرما شامل ہیں۔
کمیشن ۶مارچ۲۰۲۰ کو جموں کشمیر کے پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے ایک سال کی مدت کے ساتھ، مرکز کے زیر انتظام علاقے کی تنظیم نو کے چھ ماہ بعد قائم کیا گیا تھا۔
کمیشن کو۲۰۲۱ میں ایک سال اور مرکز نے ۶ مارچ۲۰۲۲ کو دوبارہ دو ماہ کی توسیع دی تھی۔
یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ‘امیت شاہ نے گزشہ ماہ پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ حد بندی کمیشن کا عمل مکمل ہونے کے فوراً بعد جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابا کرائے جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا’’ہمیں جموں کشمیر میں گورنر راج جاری رکھنے کا شوق نہیں ہے ۔