تو صاحبان ‘ مہر بان ‘ قدر دان‘ انجان اور نادان …سپریم کورٹ ‘ اپنے ملک کی سپریم کورٹ نے سچ بولا ہے… یہ سچ کہ اقتدار کے سامنے ‘ طاقت کے سامنے ‘ حکومت کے سامنے سچ بولنا … میڈیا کا فرض ہے … سپریم کورٹ کے منہ میں گھئی شکر کہ اللہ میاں کی قسم بڑے پتے کی بات کہی ہے… سچی بات کہی ہے کہ… کہ سچ بولنا میڈیا کا فرض ہے… ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں اور… اور اس لئے مانتے ہیں کہ اگر میڈیا سچ نہیں بولے گا… کم از کم حکومت کے سامنے سچ نہیں بولے گا تو… تو وہ کچھ اور ہو سکتا ہے‘ لیکن میڈیا نہیں… وہ کچھ اور ہو سکتی ہے… لیکن صحافت نہیں … بالکل بھی نہیں ۔اس لئے صاحب سپریم کورٹ نے جو کچھ بھی کہا ہے ہم اس کی حرف بہ حرف تائید کرتے ہیں… اسے سر تسلیم خم کرکے قبول بھی کرتے ہیں… لیکن…لیکن صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں اب کچھ بھی مفت نہیں ملتا … ہر چیز کی ایک قیمت ہو تی ہے‘ ہر چیز کی قیمت چکانی پڑتی ہے… اور اگر میڈیا سچ بولے گا … حکومت کے سامنے سچ بولے گا … طاقت کے سامنے سچ بولے گا تو… تو صاحب اس کی بھی ایک قیمت ہو گی… سچ بولنے کی قیمت ۔ یہ ایسی قیمت ہے جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا ہے… ہر کوئی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو سکتا ہے … کیونکہ صاحب حکومت کے سامنے ‘ طاقت کے سامنے سچ بولنے کی جو قیمت ہے… آلو پیاز والی قیمت نہیں ہے… اور بالکل بھی نہیں ہے… وہ ایک بھاری قیمت ہے ‘ اتنی بھاری کہ …کہ اس کے بوجھ تلے میڈیا کا ایک بڑا حصہ دب سکتا ہے… دب جاتا ہے… اور دنیا بھر میں دب جاتا ہے۔اس لئے صاحب بڑے ادب اور احترام کے ساتھ سپریم کورٹ نے میڈیا ‘ اس کی ذمہ داری ‘ اس کی آزاد ی کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا ہے… وہ سونے کے حروف ہیں‘ بڑے انمول حروف… لیکن…لیکن صاحب مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا سچ بولنے کیلئے تیار ہے… ہمیشہ تیار رہتا ہے لیکن… لیکن حکومتیں‘ طاقتیں سچ سننے کیلئے تیار نہیں ہو تی ہیں… بالکل بھی نہیں ہو تی ہیں… اور یوں میڈیا کو اپنے کہے ہو ئے‘ لکھے ہوئے سچ کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے… قیمت چکانی پڑتی ہے اور… اور یہی آج کی دنیا کی حقیقت ہے‘یہی آج کی دنیا کا سچ ہے… سو فیصد سچ۔ ہے نا؟