نئی دہلی//
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جموں کشمیر کیلئے مالی سال ۲۰۲۳ تا ۲۰۲۴ کیلئے ایک لاکھ۱۸ہزار۵۰۰ کروڑ کا بجٹ آج پارلیمنٹ میں پیش کیا۔
لوک سبھا میں پیش کیے گئے بجٹ پر کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوا کیونکہ آج پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ہنگامے کے بعد اجلاس کو منگل تک موخر کیا گیا۔
مرکزی وزیر کی جانب سے پیش کیے بجٹ میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کیلئے۴۱ہزار۴۹۱ کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق جموں وکشمیر میں مالی سال۲۰۲۳تا۲۰۲۴ میں ایک لاکھ۶ہزار۶۱ کروڑ روپے موصول ہونے کی توقع ہے جبکہ اخراجات۷۷ہزار۹ کروڑ روپے متوقع ہے، جس میں۲۹ہزار۵۲ کروڑ روپے کپٹیل کے اخراجات کیلئے بچت کا امکان ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آج ایک ماہ کے وقفے کے بعد بجٹ اجلاس کا دوسرا مرحلہ شروع ہواجس دوران وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا۔
واضح رہے یونین ٹریٹری بنے کے بعد جموں کشمیر کا یہ چوتھا بجٹ ہے جو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمان میں پیش کیا۔اس بجٹ پر لوک سبھا میں ایک روز اور راجیہ سبھا میں ایک روز کیلئے بحث ہوگی اور۳۱ مارچ کو پارلیمنٹ اس بجٹ کو پاس کرے گی۔
یکم اپریل سے اس پر جموں کشمیر میں کام شروع ہوگا۔
جموں کشمیر انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ بجٹ کی توجہ گڈ گورننس، نچلی سطح پر جمہوریت کو مضبوط کرنا، پائیدار زراعت کو فروغ دینا، سرمایہ کاری اور ترقی میں سہولت فراہم کرنا، روزگار کی فراہمی، تیز رفتار ترقی اور جامع ترقی، خواتین کو بااختیار بنانا اور سماجی شمولیت ہے۔
عہدیدار نے کہا ’’حمایت۰ء۲ کا آغاز روزگار پر مبنی تجارت پر نئے سرے سے توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ اسکل ڈیولپمنٹ، مشن یوتھ، انڈسٹریز اینڈ کامرس، اسکول ایجوکیشن، زراعت وغیرہ جیسے محکموں میں ہنر سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تربیت اور ہم آہنگی کے لیے‘ اس کا ایک حصہ ہے‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ۲۰۲۱تا۲۰۲۲ میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے جموں و کشمیر کے لیے۳ء۱ ہزار کروڑ کی مالیت کا بجٹ پیش کیا تھا۔ وہیں سنہ ۲۰۲۲تا۲۰۲۳ میں۰۸ء۱ ہزار کروڈ مالیت کا بجٹ مختص تھا جس سے وادی کشمیر میں تجار مایوس ہی دیکھے گئے۔
جموں کشمیر میں سنہ ۲۰۱۸ کے بعد منتخب حکومت نہ ہونے اور صدر راج نافذ ہونے کے باعث مرکزی وزیر خزانہ ہی اس یونین ٹریٹری کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر رہی ہے۔
اس سے قبل سابق ریاست میں یہاں کی منتخب سرکار ہی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتی تھی۔ آخری بجٹ سابق وزیر خزانہ حسیب درابو نے پی ڈی پی اور بی جی پی مخلوط سرکار کے دوران سنہ ۲۰۱۸ میں اسمبلی کے مارچ اجلاس میں پیش کیا تھا۔