سرینگر//
’’ منزل کے حصول کیلئے دل میں لگن اور جذبے کی موجیں موجزن ہوں تو راستے میں آنے والی کسی بھی دیو قامت رکاوٹ کو سر کرکے کامیابی و کامرانی کا تاج اپنے سر پر سجایا جا سکتا ہے ‘‘۔
یہ باتیں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک دور افتادہ گاؤں بپٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عاشق حسین کی ہیں جو حال میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم ایس) دہلی میں سائنٹسٹ ’سی‘منتخب ہوئے ۔
ڈاکٹرحسین نے اپنی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کے بارے یو این آئی کے ساتھ تفصیلی گفتگو کے دوران کہا کہ اپنی منزل حاصل کرنے کا جذبہ ہو تو ایک طالب علم کسی بھی مشکل کو پار کرکے کامیابی کو اپنا مقدر بنا سکتا ہے ۔
ان کا ماننا ہے ’’محنت اور اپنے مضمون پر مکمل عبور و دسترس حاصل ہو تو حصول مقصد کے راستے نہ صرف آسان ہوجاتے ہیں بلکہ نئی راہیں بھی روشن ہوجاتی ہیں جن پر چلنے سے ایک طالب علم کامیابی کے افق پر ایک تابناک ستارے کی طرح روشن ہوسکتا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر حسین نے کسی معروف اسکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل نہیں کی ہے بلکہ اپنے ہی گاؤں کے ایک پرائمری اسکول میں داخلہ لے کر اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا ہے ۔
اس سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’میں نے اپنے ہی گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا‘‘۔
نوجوان سائنٹسٹ کا کہنا تھا’’میں اقتصادی لحاظ سے ایک کمزور خاندان کا چشم و چراغ ہوں لہذا میرے والدین مجھے بڑے اسکول میں پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مجھے تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی‘‘۔
ڈاکٹرحسین کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے شوق کو پورا کرنے کیلئے ایک دو بار چھوٹی موٹی سرکاری نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ ایک دو بار مجھے سرکاری نوکریاں ملی لیکن اعلیٰ تعلیم کے شوق کو پورا کرنے کے لئے ان کو قربان کر دیا۔
ان کا کہنا تھا ’’اس دوران مجھے سماج کے طعنے کے بھی برداشت کرنے پڑے اور سخت ترین مالی دشواریوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا لیکن ان مشکلات نے میرے پائے استقلال کو متزلزل نہیں کیا‘‘۔
نوجوان سائنٹسٹ نے سٹیٹسٹکس اور اکنامکس مضامین میں کشمیر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی۔انہوں نے کہا’’میں نے سٹیٹسٹکس اور اکنامکس مضامین میں کشمیر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی اور اس کے بعد سال۲۰۱۸ میں‘ میں نے سٹیٹسٹکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی‘‘۔
ڈاکٹر حسین کا کہنا تھا’’پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد میں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس دوران میں نے وادی کے مختلف کالجوں میں کنٹریکچول بنیادوں پر کام کیا‘‘۔انہوںنے کہا کہ اس کے علاوہ میں آن لائن بھی بچوں کو پڑھاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی وساطت سے چگ، ٹریم وغیرہ پر لیکچر دے کر اچھی خاصی کمائی کرتا تھا۔
موصوف کے زائد از ایک درجن ریسرچ پیپر قومی و بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے گریجویشن کیلئے ایک کتاب’ڈسکرپٹیو سٹیٹسٹکس‘بھی تحریر کی ہے اور مزید بھی وہ تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ سٹیٹسٹکس کو یہاں باقاعدہ طور پر ہائر سکنڈری سطح پر متعارف نہیں کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں بہت ہی کم ہائر سکنڈری اسکولوں میں اس مضمون کو پڑھایا جا رہا ہے جب کہ ایک طالب علم کو آگے بڑھنے کے لئے اس میں کافی گنجائش موجود ہے ۔
نوجوان سائنٹسٹ متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ اس مضمون کو ہر ہائر سکنڈری میں پڑھانے کیلئے بندوبست کیا جانا چاہئے ۔طالب علموں کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ محنت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور پھر آگے بڑھنے کے موقعے بسیار ہیں۔